مرے مد مقابل تیر خنجر اور بھالے ہیں

مرے مد مقابل تیر خنجر اور بھالے ہیں
مگر ایسے کئی بھالے مرے دل نے سنبھالے ہیں


مقید دائرہ در دائرہ ہے زندگی میری
مرے ہر چاند کے چاروں طرف تاریک ہالے ہیں


کٹے کی زندگی کیسے مسلسل جبر میں رہ کر
سفر صحرا کا ہے اور پاؤں میں چھالے ہی چھالے ہیں


بھلا سکتا ہوں کیسے وار جو سینے پہ کھائے ہیں
کہ اس کے زخم بھی اولاد کی مانند پالے ہیں


حقیقت تو یہ ہے ہر عہد کے کردار یکساں ہیں
وہی سقراط ہے اور زہر سے لبریز پیالے ہیں


مرے گھر میں ہے کیا رکھا تری خدمت گزاری کو
کہ میرے پاس تو مہمان جاں غم کے نوالے ہیں


بڑھوں آگے کہ پیچھے لوٹ جاؤں اے سہیلؔ امجد
مرے پیچھے ہیں گہری کھائیاں آگے ہمالے ہیں