کوئی ستم اور کوئی نہ ظلم یاد رہے گا (ردیف .. ی)
کوئی ستم اور کوئی نہ ظلم یاد رہے گا
ہم کو وطن سے ہے جو محبت یاد رہے گی
جب ہم اپنی ہر شے بھولتے جاتے ہوں گے
بھولتے جانے کی یہ عادت یاد رہے گی
مسلے گئے تھے جانے کیوں امید کے پھول
پھولوں کی انمول شہادت یاد رہے گی
بھول نہ پاؤں حسن وہ چہرہ خوابوں جیسا
اس سے بچھڑ جانے کی قیامت یاد رہے گی
میں نہیں دوں گا کوئی حساب بھی روز محشر
بخشش کو درکار ہے نسبت یاد رہے گی