کوئی دولت کا پجاری ہو کوئی تدبیر کا

کوئی دولت کا پجاری ہو کوئی تدبیر کا
وار چل جاتا ہے ہر اک شخص پر تقدیر کا


اک نیا غم روز ملتا ہے پرانے غم کے ساتھ
سلسلہ ٹوٹے گا کب اس درد کی زنجیر کا


سازشوں کے جال ہی پھیلے ہیں ہر اک راہ میں
پیار کا رانجھا بھی خود مجرم ہے اپنی ہیر کا


دھیرے دھیرے زخم پر انگور آ ہی جائے گا
چپ ہی رہنا چاہیے کیا فائدہ تشہیر کا


سرخ آنچل میں دہکتے پھول کی صورت سہیلؔ
اب تلک آنکھوں میں نقشہ ہے اسی تصویر کا