صحرا میں ہوں جنوں کے بھی آثار ہی نہیں

صحرا میں ہوں جنوں کے بھی آثار ہی نہیں
سر پھوڑنے کے واسطے دیوار ہی نہیں


جس کی دوائے دل کی ضرورت کے واسطے
ہم چارہ گر ہوئے تو وہ بیمار ہی نہیں


اپنے وطن کی خاک لیے پھر رہا ہوں میں
اس کی وفاؤں سے مجھے انکار ہی نہیں


تقدیر کے ہیں کھیل جواں عشق جب ہوا
تب کھیلنے کے واسطے منجھدار ہی نہیں


ہم رہ نورد شوق کو صحرا ہی ٹھیک ہے
کیا لطف میکدے میں اگر یار ہی نہیں


صد افتخار غیروں کو دیدار عام ہے
صد حیف ہم کو دعوت دیدار ہی نہیں


بے بس ہی کر دیا ہے ارادوں نے اے سہیلؔ
قسمت نے کر دیا مجھے لاچار ہی نہیں