سفر کرو تو اک عالم دکھائی دیتا ہے

سفر کرو تو اک عالم دکھائی دیتا ہے
قد اپنا پہلے سے کچھ کم دکھائی دیتا ہے


میں خشک شاخ خزاں پہ یونہی نہیں بیٹھا
یہاں سے ابر کا پرچم دکھائی دیتا ہے


مگر تنا ہوا رہتا ہے کم نصیبوں سے
یہ آسماں جو تمہیں خم دکھائی دیتا ہے


ہر ایک ہاتھ میں پتھر کہاں سے آئیں گے
تمام شہر تو برہم دکھائی دیتا ہے


خود اپنے زخم پہ اتنا حزیں نہ ہو کہ سہیلؔ
صف عدو میں بھی ماتم دکھائی دیتا ہے