اجڑے دل و دماغ کو آباد کر سکوں

اجڑے دل و دماغ کو آباد کر سکوں
ایسا تو کچھ کیا نہیں جو یاد کر سکوں


آخر کو آدمی ہوں کبھی چاہتا ہے دل
خود کو ترے خیال سے آزاد کر سکوں


کھولے زبان وہ جو اسے جانتا نہ ہو
میرا تو منہ نہیں ہے کہ فریاد کر سکوں


اک عمر کٹ گئی مگر اب تک ہے جستجو
دن کاٹنے کا فن کوئی ایجاد کر سکوں


اپنے ہی غم غلط ہوں سخن سے بہت ہے یہ
ایسا ہنر کہاں کہ اسے شاد کر سکوں


برباد ہو کے لوٹنے والا ہوں میں سہیلؔ
آیا تھا یوں کہ دہر کو آباد کر سکوں