Subodh Lal Saqi

سبودھ لال ساقی

سبودھ لال ساقی کی نظم

    کب کرو گے ہمارا استقبال

    وقت کا ایسا یہ جزیرہ ہے جہاں دن اور رات کچھ بھی نہیں ذہن و دل اب ہیں ایسے عالم میں ہوش و بے ہوشی میں نہیں کچھ فرق اجنبیت ہے ایک خلا ہے یہ یہاں خود کا پتا نہیں ملتا پھر بھی کچھ تو سنائی دیتا ہے چند آوازیں اور ایک دستک ہر صدا کا کچھ ایسا لہجہ ہے جیسے دہشت ہو درد ہو موجود جیسے عصمت کو ...

    مزید پڑھیے

    چناؤ

    چار برس کے میلے کچلے دبلے پتلے لڑکے میں تھی غضب کی پھرتی چوراہے پر ایک طرف کی ہری لائٹ سے دوسری سمت کی لال لائٹ تک بجلی کی تیزی سے وہ آتا جاتا تھا جو مل جائے اس کے آگے پھیلاتا تھا اپنی ہتھیلی جس میں خوشحالی اور لمبے جیون کی ریکھائیں تھیں چوراہے تک ہی محدود تھی اس کی دنیا جس کو اس ...

    مزید پڑھیے

    رتجگے

    اپنی اپنی فکر اپنے اپنے ڈر اپنے اپنے درد لیے تم اور میں ادھ سوئے سے ادھ جاگے سے کب سے کروٹ بدل رہے ہیں میں کیوں جاگ رہا ہوں مجھ کو پتا نہیں لیکن سوچ رہا ہوں تم کیوں جاگ رہی ہو میرے جاگے رہنے کی تم چنتا چھوڑو سو جاؤ

    مزید پڑھیے

    میں کسی کونے میں

    میں کسی کونے میں خائف سا کھڑا ہوں اور چھپ کر دیکھتا ہوں ان گنت سایوں کی بھیڑ افراتفری میں ہر اک سو اور کرتا ہوں تصور قید ہیں سینے میں اک اک سائے کے بس مشینی دھڑکنیں ذہن ہیں بیمار ان کے قرض ہے احسان ہے ہر سانس ان کی کھوکھلی ان کی نگاہیں دیکھتی ہیں پر بنا بینائی کے مردہ ہیں احساس ان ...

    مزید پڑھیے

    میرے اندر

    کائنات کے انتظام میں اک چھوٹا سا ذرہ ہوں میں لیکن اتنا جان گیا ہوں میرے اندر اک صحرا ہے جو صدیوں سے پیاسا ہے میں وہ امرت ڈھونڈھ رہا ہوں جس سے اس کی پیاس بجھے میرے اندر ہے اک ساگر کتنا گہرا کوئی نہ جانے غوطہ خور کے روپ میں اکثر کوشش کی ہے اس کی تہہ تک پہنچ سکوں بے شک بڑے نظام ...

    مزید پڑھیے

    سیلن

    ہم نے اپنے ساتھ کی آخری شب بوڑھے پیڑ کی جھینی چھتری کے نیچے چاند کی بھیگی بھیگی کرنوں کے ساتھ بتائی تھی میں نے اپنے اشکوں کا رخ موڑ دیا تھا تم نے پلکوں سے دو موتی میرے کندھے پر ٹانک دئے تھے اور ماتھے پر کبھی نہ مٹنے والی مہر لگائی تھی ایک گیلے بوسے کی اگلی شب اس پیڑ کے نیچے میں ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو آج نہ سونے دینا

    در مت کھولو نیند کو اندر مت آنے دو ورنہ اس کی انگلیاں چھیڑیں گی اس البم کے صفحے جس میں تصویریں ہیں کل کے کچھ آسیبوں کی ذکر چھڑے گا ان اوقات کا دفن ہیں جن میں سب میری ناکام امیدیں میری بے جا کاوش میرے سلگتے ارماں پھر بھڑکے گی آگ پھر جھلسے گا آج کا دامن پھر فردا سے ناطہ توڑنے والی ...

    مزید پڑھیے

    ہوس

    کچھ بوندوں نے مل کر میری ہتھیلی پر چھوٹی سی ایک جھیل بنائی جس میں پورے چاند کا عکس اتر آیا وحشی من نے اکسایا چاند کو میں نے قید کر لیا مٹھی میں سارا پانی پھسل گیا چاند میرے قبضے سے نکل گیا

    مزید پڑھیے

    اندر دھنش بن جائیں

    سمے ہے ایک سمندر جگ صدیاں اور سال موسم ماہ اور ہفتے رات اور دن شام و سحر بحر وقت کے قطرے ہیں سب اس ساگر کے کوئی نہیں ہیں کنارے کوئی سفینہ پار نہیں کر پایا اس کو ایک بلبلے کی گودی میں تم میں ہم سب بہتے ہیں اس سے قبل کہ ہم بھی یہیں پر غرق یوں ہی ہو جائیں کیوں نہ ہوا کے پنکھ لگا کر اڑ ...

    مزید پڑھیے

    دھند

    وہم کے اس جنگل سے باہر جانے کو کبھی کبھی ایک راہ نظر تو آتی ہے بڑھتا بھی ہوں اس جانب تھوڑا سا مگر شک کی دھند سے عینک کے شیشے دھندلے ہو جاتے ہیں سب رستے کھو جاتے ہیں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2