سراج فیصل خان کی نظم

    کیفے

    دو ہی کپ منگاتا ہوں آج بھی میں کافی کے دیکھ کر یہ کیفے میں لوگ رونے لگتے ہیں کوئی ایک وہ ٹیبل بک کبھی نہیں کرتا جس پہ میں نے چابی سے ایک دل بنایا تھا اور دو نام لکھے تھے ہو گیا پرانا پر آج تک نہیں بدلا میز کا وہ اک گلدان پہلے وصل پر جس میں تم نے پھول رکھے تھے مجھ سے کوئی ویٹر اب ٹپ ...

    مزید پڑھیے

    پرفیوم

    ترے پرفیوم کی خوشبو میری جاناں ہمارے وصل پر پہلے گلے لگنے سے میرے فیوریٹ سوئیٹر پہ میرے ساتھ آئی تھی یہ تیرے پیار کی تن پہ مرے پہلی نشانی تھی جسے اب تک حفاظت سے مری ساری محبت سے سجا کے میں نے رکھا ہے یہ خوشبو چھوٹ نا جائے اسی ڈر سے دوبارہ میں نے اوس سوئیٹر کو پہنا ہے نا دھویا ہے

    مزید پڑھیے

    تخلیق

    وہ مجھ سے کہتی تھی میرے شاعر غزل سناؤ جو ان سنی ہو جو ان کہی ہو کہ جس کے احساس ان چھوئے ہوں ہوں شعر ایسے کہ پہلے مصرع کو سن کے من میں کھلے تجسس کا پھول ایسا مثال جس کی ادب میں سارے کہیں بھی نا ہو میں اس سے کہتا تھا میری جاناں غزل تو کوئی یہ کہہ چکا ہے یہ معجزہ تو خدا نے میرے دعا ...

    مزید پڑھیے

    محاذ

    میں ظالموں کے خلاف مٹی کا جسم لے کر کھڑا رہوں گا ضمیر جن کو بھی بیچنا ہے وہ بیچ دیں میں نہیں بکوں گا اڑا رہوں گا میں جانتا ہوں یہ بھیڑ مجھ کو تو ایک لمحے میں روند دے گی تو روند دے پھر کسے پڑی ہے ذرا سی ہمت بھی ہے اگر تو وہ بزدلی سے بہت بڑی ہے ہر ایک در بند ہو بھی جائے بھلے دریچوں کو ...

    مزید پڑھیے

    بے روزگار

    تو اور اک بار پھر میرا سلیکشن ہو نہیں پایا میری ہر ایک ناکامی پہ رسی مسکراتی ہے خوشی سے اینٹھتی ہے اور نئے بل پڑتے جاتے ہیں مجھے اپنا گلا گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے میں اپنی چھت سے جب نیچے گلی میں جھانکتا ہوں تو یہ لگتا ہے سڑک مجھ کو اچھل کر کھینچ لے جائے گی اپنے سنگ ڈرا دیتا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    مصرعے

    میرے خیالوں کا ایک تنکا تمہاری آنکھوں میں گر گیا ہے برا نا مانو اگر جو تم تو قریب آؤں تمہاری آنکھوں سے مجھ کو مصرعے نکالنا ہے

    مزید پڑھیے

    نوستالجیا

    وہ جب ناراض ہوتی تھی تو اپنے گارڈن میں جا کے مجھ کو فون کرتی تھی ستانے کے لئے مجھ کو وہ کہتی تھی بہت بننے لگے ہو تم مزہ تم کو چکھاؤنگی تمہاری وہ جو گڑیا ہے مرے اندر میں اس کی انگلیوں میں سیکڑوں کانٹے چبھاؤں‌ گی رولاؤں گی میں کہتا تھا اگر تم نے مری پیاری سی گڑیا کو رلایا تو قسم سے ...

    مزید پڑھیے

    روگ

    مجھے معلوم ہے مجھ سے میرے اس روگ سے میرے سبھی اپنے پریشاں ہیں میری تیمار داری سے میری بیوی میرے بچے بہت تنگ آ چکے ہیں اب یہ بالکل صاف لکھا ہے سبھی چہروں پہ کے وہ اب بہت بے ربط ہیں مجھ سے مگر یہ فرض آخر ہے نبھانا ہے زمانہ ہے دکھانا ہے سبھی تیاریاں لگ بھگ مکمل ہو چکی ہوں گی دواؤں کے ...

    مزید پڑھیے

    زومبی

    میں اک زومبی کے جیسا ہوں بظاہر تو میں زندہ ہوں مگر اندر سے مردہ ہوں کوئی احساس انسانی نہیں اب میری مٹی میں نہ ہنستا ہوں نہ روتا ہوں نہ کوئی زخم دکھتا ہے نہ مجھ کو درد ہوتا ہے میری سانسیں تو چلتی ہیں مگر ان کو نہیں محسوس کر سکتا میرے سینہ میں دل تو ہے مگر دھڑکن ندارد ہے میں اک زومبی ...

    مزید پڑھیے

    بے روزگار 2

    میں اپنی جانب سے پوری کوشش تو کر رہا ہوں مگر نتیجہ خلاف آئیں تو کیا کروں میں مجھے پتہ ہے کہ جاب پر ہی ہمارا فیوچر ٹکا ہوا ہے مگر یہ رستہ تو دن بہ دن اب طویل ہوتا ہی جا رہا ہے جو ڈر تمہارا ہے میرے ڈر سے الگ نہیں ہے ہو تم پریشاں تو میں بھی جاناں سکوں میں کب ہوں میں اپنی جانب سے پوری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2