سراج فیصل خان کی غزل

    ترے احساس میں ڈوبا ہوا میں

    ترے احساس میں ڈوبا ہوا میں کبھی صحرا کبھی دریا ہوا میں تری نظریں ٹکی تھیں آسماں پر ترے دامن سے تھا لپٹا ہوا میں کھلی آنکھوں سے بھی سویا ہوں اکثر تمہارا راستہ تکتا ہوا میں خدا جانے کے دلدل میں غموں کے کہاں تک جاؤں گا دھنستا ہوا میں بہت پر خار تھی راہ محبت چلا آیا مگر ہنستا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    حوصلے تھے کبھی بلندی پر

    حوصلے تھے کبھی بلندی پر اب فقط بے بسی بلندی پر خاک میں مل گئی انا سب کی چڑھ گئی تھی بڑی بلندی پر پھر زمیں پر بکھر گئی آ کر دھوپ کچھ پل رہی بلندی پر کھل رہی ہے تمام خوشیوں میں اک تمہاری کمی بلندی پر ہم زمیں سے یہی سمجھتے تھے ہے بہت روشنی بلندی پر گر گئی ہیں سماج کی قدریں چڑھ ...

    مزید پڑھیے

    تعلق توڑ کر اس کی گلی سے

    تعلق توڑ کر اس کی گلی سے کبھی میں جڑ نہ پایہ زندگی سے خدا کا آدمی کو ڈر کہاں اب وہ گھبراتا ہے کیول آدمی سے مری یہ تشنگی شاید بجھے گی کسی میری ہی جیسی تشنگی سے بہت چبھتا ہے یہ میری انا کو تمہارا بات کرنا ہر کسی سے خسارے کو خسارے سے بھروں گا نکالوں گا اجالا تیرگی سے تمہیں اے ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں وفاؤں سے رہتے تھے بے یقین بہت

    ہمیں وفاؤں سے رہتے تھے بے یقین بہت دل و نگاہ میں آئے تھے مہہ جبین بہت وہ ایک شخص جو دکھنے میں ٹھیک ٹھاک سا تھا بچھڑ رہا تھا تو لگنے لگا حسین بہت تو جا رہا تھا بچھڑ کے تو ہر قدم پہ ترے پھسل رہی تھی مرے پاؤں سے زمین بہت وہ جس میں بچھڑے ہوئے دل لپٹ کے روتے ہیں میں دیکھتا ہوں کسی فلم ...

    مزید پڑھیے

    وہ بڑے بنتے ہیں اپنے نام سے

    وہ بڑے بنتے ہیں اپنے نام سے ہم بڑے بنتے ہے اپنے کام سے وہ کبھی آغاز کر سکتے نہیں خوف لگتا ہے جنہیں انجام سے اک نظر محفل میں دیکھا تھا جسے ہم تو کھوئے ہے اسی میں شام سے دوستی چاہت وفا اس دور میں کام رکھ اے دوست اپنے کام سے جن سے کوئی واسطہ تک ہے نہیں کیوں وہ جلتے ہے ہمارے نام ...

    مزید پڑھیے

    اسے پانے کی کرتے ہو دعا تو

    اسے پانے کی کرتے ہو دعا تو مگر اس سے بھی کل جی بھر گیا تو یقیناً آج ہم اک ساتھ ہوتے اگر کرتے ذرا سا حوصلہ تو چلے ہو رہنما کر علم کو تم تمہیں اس علم نے بھٹکا دیا تو سمجھ سکتے ہو کیا انجام ہوگا تمہارے وار سے وہ بچ گیا تو بہت مصروف تھا محفل میں مانا نہیں کچھ بولتا پر دیکھتا تو کسی ...

    مزید پڑھیے

    زمیں پر بس لہو بکھرا ہمارا

    زمیں پر بس لہو بکھرا ہمارا ابھی بکھرا نہیں جذبہ ہمارا ہمیں رنجش نہیں دریا سے کوئی سلامت گر رہے صحرا ہمارا ملا کر ہاتھ سورج کی کرن سے مخالف ہو گیا سایہ ہمارا رقیب اب وہ ہمارے ہیں جنھوں نے نمک تا زندگی کھایا ہمارا ہے جب تک ساتھ بنجارہ مجازی کہاں منزل کہاں رستہ ہمارا تعلق ترک ...

    مزید پڑھیے

    اب کسی کو نہیں مرا افسوس

    اب کسی کو نہیں مرا افسوس جان کر یہ بہت ہوا افسوس دکھ نہیں یہ جہاں مخالف ہے ساتھ اپنے نہیں خدا افسوس لڑ کے برباد ہو گئے جب ہم ساتھ مل کر کیا گیا افسوس جب بھی خوشیوں نے در پہ دستک دی سامنے آ کھڑا ہوا افسوس ہم فقط جنگ ہی نہیں ہارے حوصلہ بھی بکھر گیا افسوس اک غزل اور ہو گئی ہم ...

    مزید پڑھیے

    جنون سر سے اتر گیا ہے

    جنون سر سے اتر گیا ہے وجود لیکن بکھر گیا ہے بہت خسارہ ہے عاشقی میں تمام علم و ہنر گیا ہے میں اور ہی شخص ہوں کوئی اب جو شخص پہلے تھا مر گیا ہے بہت کڑا تھا وہ وقت مجھ پر وہ وقت لیکن گزر گیا ہے سراجؔ اک خوش مزاج چہرہ مجھے اداسی سے بھر گیا ہے

    مزید پڑھیے

    نظر سے دور رہے یا نظر کے پاس رہے

    نظر سے دور رہے یا نظر کے پاس رہے ہمیشہ عشق کے موسم بہت ہی خاص رہے میں تیرے ذکر کی وادی میں سیر کرتا رہوں ہمیشہ لب پہ ترے نام کی مٹھاس رہے یہ اضطراب جنوں کو بہت اکھرتا ہے کہ تم قریب ہو تن پر کوئی لباس رہے وہ رو بہ رو تھے تو آنکھوں سے دور چل نکلے کھلی نہ بوتلیں خالی سبھی گلاس ...

    مزید پڑھیے