Shaz Tamkanat

شاذ تمکنت

حیدرآباد کے ممتاز شاعر

A prominent poet from Hyderabad.

شاذ تمکنت کی غزل

    دشت کیا شے ہے جنوں کیا ہے دوانے کے لئے

    دشت کیا شے ہے جنوں کیا ہے دوانے کے لئے شہر کیا کم ہے مجھے خاک اڑانے کے لئے ہم نے کیا جانئے کیا سوچ کے گلشن چھوڑا فصل گل دیر ہی کیا تھی ترے آنے کے لئے میں سرائے کے نگہباں کی طرح تنہا ہوں ہائے وہ لوگ کہ جو آئے تھے جانے کے لئے ہم وہی سوختہ سامان ازل ہیں کہ جنہیں زندگی دور تک آئی تھی ...

    مزید پڑھیے

    تری نظر سبب تشنگی نہ بن جائے

    تری نظر سبب تشنگی نہ بن جائے کہیں شراب مری زندگی نہ بن جائے کبھی کبھی تو اندھیرا بھی خوبصورت ہے ترا خیال کہیں روشنی نہ بن جائے بھڑک نہ جائے کہیں شمع علم و دانش بھی جنوں جنوں ہی رہے آگہی نہ بن جائے میں ڈر رہا ہوں کہاں تیرا سامنا ہوگا ترا وجود ہی میری کمی نہ بن جائے ترے بغیر ...

    مزید پڑھیے

    رنگ لایا مرا بے برگ و نوا ہو جانا

    رنگ لایا مرا بے برگ و نوا ہو جانا اتنا آسان نہ تھا اس کا خدا ہو جانا کون آواز برس بن کے رہا محمل ناز کس کی قسمت میں ہے صحرا کی صدا ہو جانا حشر تک بے گنہی ناز کرے گی مجھ پر وہ مرا تیری نگاہوں میں برا ہو جانا مجھ پہ وہ وقت پڑا ہے کہ شکایت کیسی تجھ کو لازم تھا بہ ہر حال خفا ہو ...

    مزید پڑھیے

    جس سے بیزار رہے تھے وہی در کیا کچھ ہے

    جس سے بیزار رہے تھے وہی در کیا کچھ ہے گھر کی دوری نے یہ سمجھایا کہ گھر کیا کچھ ہے شکر کرتا ہوں خدا نے مجھے محسود کیا اب میں سمجھا کہ مرے پاس ہنر کیا کچھ ہے رات بھر جاگ کے کاٹے تو کوئی میری طرح خود بہ خود سمجھے گا وہ پچھلا پہر کیا کچھ ہے کوئی جھونکا نہیں سنکا چمن رفتہ سے کوئی سن گن ...

    مزید پڑھیے

    مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے

    مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے وہ کشتیاں مری پتوار جن کے ٹوٹ گئے وہ بادباں جو ترستے رہے ہوا کے لیے بس ایک ہوک سی دل سے اٹھے گھٹا کی طرح کہ حرف و صوت ضروری نہیں دعا کے لیے جہاں میں رہ کے جہاں سے برابری کی یہ چوٹ اک امتحان مسلسل مری انا کے ...

    مزید پڑھیے

    اجالا چھن رہا ہے روشنی تقسیم ہوتی ہے

    اجالا چھن رہا ہے روشنی تقسیم ہوتی ہے تری آواز ہے یا زندگی تقسیم ہوتی ہے کبھی ریگ رواں سے پیاس بجھ جاتی ہے رہرو کی کبھی دریا کے ہاتھوں تشنگی تقسیم ہوتی ہے یہی وہ موڑ ہے اپنے پرائے چھوٹ جاتے ہیں قریب کوئے جاناں گمرہی تقسیم ہوتی ہے خوشی کے نام پر آنکھوں میں آنسو آ ہی جاتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4