Shaz Tamkanat

شاذ تمکنت

حیدرآباد کے ممتاز شاعر

A prominent poet from Hyderabad.

شاذ تمکنت کی نظم

    رتجگا

    اندھیری رات ہوا تیز برشگال کا شور کروں تو کیسے کروں شمع کی نگہبانی ان آندھیوں میں کف دست کا سہارا کیا کہاں چلے گئے تم سونپ کر یہ دولت نور مری حیات تو جگنو کی روشنی میں کٹی نہ آفتاب سے نسبت نہ ماہتاب رفیق جنم جنم کی سیاہی برس برس کی یہ رات قدم قدم کا اندھیرا نفس نفس کی یہ ...

    مزید پڑھیے

    خوف کا صحرا

    کیا ہوا شوق فضول کیا ہوئی جرأت رندانہ مری مجھ پہ کیوں ہنستی ہے تعمیر صنم خانہ مری پھر کوئی باد جنوں تیز کرے آگہی ہے کہ چراغوں کو جلاتی ہی چلی جاتی ہے دور تک خوف کا صحرا نظر آتا ہے مجھے اور اب سوچتا ہوں فکر کی اس منزل میں عشق کیوں عقل کی دیوار سے سر ٹکرا کر اپنے ماتھے سے لہو پونچھ ...

    مزید پڑھیے

    پتھراؤ کی چومکھ برکھا میں

    میں زخمی زخمی لہو لہو ہر جنگل ہر آبادی میں کانٹوں کے نکیلے رستوں پر پھولوں کی رو پہلی وادی میں ہر شہر میں ہر ویرانے میں کوئی تو خریدار آئے گا مقتل کی سنہری چوکھٹ تک بسمل کا طرف دار آئے گا اک آس لئے امید لیے دامن میں مہ و خورشید لیے پتھراؤ کی چومکھ برکھا میں خوابوں کو بچاتا پھرتا ...

    مزید پڑھیے

    تماشہ

    رات جگمگاتی ہے بھیڑ شور ہنگامے زرق برق پہناوے سرخ سیم گوں دھانی روشنی کے فوارے مرد عورتیں بچے آڑی ترچھی صف باندھے ایک خط نوریں کے نقطۂ عمودی کو سر اٹھائے تکتے ہیں لوکا جاگ اٹھتا ہے ایک لاٹ گرتی ہے مرد عورتیں بچے تالیاں بچاتے ہیں صرف ایک ہی عورت چیخ روک لیتی ہے صرف ایک ہی ...

    مزید پڑھیے

    چھٹا آدمی

    یہ مرا شہر ہے خوبصورت حسیں چاندنی کا نگر دھوپ کی سرزمیں شہر کے روز و شب میری آنکھیں جس طرح پتلیاں اور سفیدی میں ان آنکھوں سے سب منظر رنگ و بو دیکھتا ہوں راستہ راستہ کو بہ کو دیکھتا ہوں میں کہ شب گرد شاعر چاند سے باتیں کرتے ہوئے چل پڑا تھا ایک بستی ملی ملگجے اور سیہ جھونپڑے چار ...

    مزید پڑھیے

    ہم زاد

    وہ اک شخص جس کی شباہت سے مجھ کو بہت خوار و شرمندہ ہونا پڑا تھا قبا روح کی ملگجی ہو گئی تھی کئی بار دامن کو دھونا پڑا تھا وہ مجھ جیسی آنکھیں جبیں ہونٹ ابرو کہ باقی نہ تھا کچھ بھی فرق من و تو وہی چال آواز قد رنگ مدھم وہی طرز گفتار ٹھہراؤ کم کم خدا جانے کیا کیا مشاغل تھے اس کے مرے پاس ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی

    اب یہ احساس دم فکر سخن ہونے لگا اپنی ہی نظموں کا بھولا ہوا کردار ہوں میں میں مسافر ہوں بیابان فراموشی کا اپنے نقش کف پا سے بھی شناسائی نہیں تا بہ پہنائے نظر ریت کے ٹیلوں کا سکوت اپنا سایہ بھی یہاں مونس تنہائی نہیں تیر بن کر کوئی سناٹے کے دل میں اترے کسی مایوس پرندے کی صدائے ...

    مزید پڑھیے

    زنجیر کی چیخ

    سمندر تجھے چھوڑ کر جا رہا ہوں تو یہ مت سمجھنا کہ میں تیری موجوں کی زنجیر کی چیخ سے بے خبر ہوں یہی میں نے سوچا ہے اپنی زمیں کو افق سے پرے یوں بچھا دوں حداین و ں تک اٹھا دوں وہ تو ہو کہ میں اپنی وسعت میں لا انتہا ہیں مگر ہم کناروں کے مارے ہوئے ہیں

    مزید پڑھیے

    سنگ آباد کی ایک دکاں

    سنگ آباد میں کیا میں نے دکاں کھولی ہے لوگ حیرت زدہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں اک خریدار نے پوچھا کہ سبب کیا تو زباں کھولی ہے یہ ہے قرنوں سے کھڑا سوچ کی آواز کا بت کوئی وجدان کا موسم کوئی الہام کی رت جب بھی آئے گی یہ دے گا کوئی نادیدہ سراغ آپ ادھر آنکھ اٹھائیں تو دکھائی دے گا شیشۂ لمحہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کا قرض

    زمیں کا قرض ہے ہم سب کے دوش و گردن پر عجیب قرض ہے یہ قرض بے طلب کی طرح ہمیں ہیں سبزۂ خود رو ہمیں ہیں نقش قدم کہ زندگی ہے یہاں موت کے سبب کی طرح ہر ایک چیز نمایاں ہر ایک شے پنہاں کہ نیم روز کا منظر ہے نیم شب کی طرح تماشہ گاہ جہاں عبرت نظارہ ہے زیاں بدست رفاقت کے کاروبار مرے اترتی جاتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2