Shaz Tamkanat

شاذ تمکنت

حیدرآباد کے ممتاز شاعر

A prominent poet from Hyderabad.

شاذ تمکنت کی غزل

    ہوا کے دوش پہ رقص سحاب جیسا تھا

    ہوا کے دوش پہ رقص سحاب جیسا تھا ترا وجود حقیقت میں خواب جیسا تھا دم وداع سمندر بچھا رہا تھا کوئی تمام شہر ہی چشم پر آب جیسا تھا مری نگاہ میں رنگوں کی دھوپ چھاؤں سی تھی ہجوم گل میں وہ کیا تھا گلاب جیسا تھا ہماری پیاس نے وہ بھی نظارہ دیکھ لیا رواں دواں کوئی دریا سراب جیسا ...

    مزید پڑھیے

    سنبھلا نہیں دل تجھ سے بچھڑ کر کئی دن تک

    سنبھلا نہیں دل تجھ سے بچھڑ کر کئی دن تک میں آئینہ تھا بن گیا پتھر کئی دن تک کیا چیز تھی ہم رکھ کے کہیں بھول گئے ہیں وہ چیز کہ یاد آئی نہ اکثر کئی دن تک اے شاخ وفا پھر وہ پرندہ نہیں لوٹا میں گھر میں تھا نکلا نہیں باہر کئی دن تک وہ بوجھ کہ تھی جس سے مرے سر کی بلندی وہ بوجھ گرا اٹھ نہ ...

    مزید پڑھیے

    میں تو چپ تھا مگر اس نے بھی سنانے نہ دیا

    میں تو چپ تھا مگر اس نے بھی سنانے نہ دیا غم دنیا کا کوئی ذکر تک آنے نہ دیا اس کا زہرابۂ پیکر ہے مری رگ رگ میں اس کی یادوں نے مگر ہاتھ لگانے نہ دیا اس نے دوری کی بھی حد کھینچ رکھی ہے گویا کچھ خیالات سے آگے مجھے جانے نہ دیا بادباں اپنے سفینہ کا ذرا سی لیتے وقت اتنا بھی زمانہ کی ہوا ...

    مزید پڑھیے

    کون دیتا رہا صحرا میں صدا میری طرح

    کون دیتا رہا صحرا میں صدا میری طرح آج تنہا ہوں مگر کوئی تو تھا میری طرح میں تری راہ میں پامال ہوا جاتا ہوں مٹ نہ جائے ترا نقش کف پا میری طرح میں ہی تنہا ہوں فقط تیری بھری دنیا میں اور بھی لوگ ہیں کیا میرے خدا میری طرح رنگ ارباب رضا پیشہ مبارک ہو تجھے کوئی ہوتا ہی نہیں تجھ سے خفا ...

    مزید پڑھیے

    اے جنوں دشت میں دیوار کہاں سے لاؤں

    اے جنوں دشت میں دیوار کہاں سے لاؤں میں تماشا سہی بازار کہاں سے لاؤں یاد ایام کہ کچھ سر میں سمائی تھی ہوا اب وہ ٹوٹا ہوا پندار کہاں سے لاؤں کس سے پوچھوں کہ مرا حال پریشاں کیا ہے تجھ کو اے آئنہ بردار کہاں سے لاؤں میری ان آنکھوں نے جیسے تجھے دیکھا ہی نہیں ہائے وہ حسرت دیدار کہاں ...

    مزید پڑھیے

    وہ نیاز و ناز کے مرحلے نگہ و سخن سے چلے گئے

    وہ نیاز و ناز کے مرحلے نگہ و سخن سے چلے گئے ترے رنگ و بو کے وہ قافلے ترے پیرہن سے چلے گئے کوئی آس ہے نہ ہراس ہے شب ماہ کتنی اداس ہے وہ جو رنگ رنگ کے عکس تھے وہ کرن کرن سے چلے گئے کوئی ان کی آنکھیں سراہتا کوئی وحشتوں سے نباہتا کہ وہ آہوان رمیدہ خو یہ سنا ختن سے چلے گئے کئی مہر و مہ ...

    مزید پڑھیے

    خوار و رسوا تھے یہاں اہل سخن پہلے بھی

    خوار و رسوا تھے یہاں اہل سخن پہلے بھی ایسا ہی کچھ تھا زمانے کا چلن پہلے بھی مدتوں بعد تجھے دیکھ کے یاد آتا ہے میں نے سیکھا تھا لہو رونے کا فن پہلے بھی دل نواز آج بھی ہے نیم نگاہی تیری دل شکن تھا ترا بے ساختہ پن پہلے بھی آج اس طرح ملا تو کہ لہو جاگ اٹھا یوں تو آتی رہی خوشبوئے بدن ...

    مزید پڑھیے

    بہت دنوں سے ہے جی میں سوال پوچھوں گا

    بہت دنوں سے ہے جی میں سوال پوچھوں گا میں تیرے آئنے سے تیرا حال پوچھوں گا بہت حسیں ہے یہ دنیا مگر زوال کے ساتھ خدا سے حشر میں حسن زوال پوچھوں گا سکوت شام سے کیوں نسبت طبیعت ہے سکوت شام سے وجہ ملال پوچھوں گا تو بے مثال ہے تیری مثال کیا پوچھوں میں کچھ نہیں مگر اپنی مثال پوچھوں ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنا حال دل مبتلا سے کچھ نہ کہا

    خود اپنا حال دل مبتلا سے کچھ نہ کہا دعا سے ہاتھ اٹھائے خدا سے کچھ نہ کہا کسے سناؤں کہ ناساز ہے جنوں کا مزاج خود اپنے شہر کی آب و ہوا سے کچھ نہ کہا یہ کس سے عشق ہوا کیوں ہوا تعجب ہے وہ خوف ہے کہ کسی آشنا سے کچھ نہ کہا یہ ہوش ہے کہ گزر جائے گی پھوار کی رت مگر یہ زعم کہ اودی گھٹا سے ...

    مزید پڑھیے

    عذاب ہجر بھی ہے راحت وصال کے ساتھ

    عذاب ہجر بھی ہے راحت وصال کے ساتھ ملی تو ہیں مجھے خوشیاں مگر ملال کے ساتھ تمہاری یاد میں بھی ضبط‌‌ و اعتدال کہاں میں تم سے کیسے ملوں ضبط و اعتدال کے ساتھ یہی بہت ہے زمانہ میں چار دن کے لئے اگر حیات کٹے ایک ہم خیال کے ساتھ کچھ اس طرح شب مہ نے کرن کی دستک دی ابھر گئیں کئی چوٹیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4