ہوا کے دوش پہ رقص سحاب جیسا تھا
ہوا کے دوش پہ رقص سحاب جیسا تھا ترا وجود حقیقت میں خواب جیسا تھا دم وداع سمندر بچھا رہا تھا کوئی تمام شہر ہی چشم پر آب جیسا تھا مری نگاہ میں رنگوں کی دھوپ چھاؤں سی تھی ہجوم گل میں وہ کیا تھا گلاب جیسا تھا ہماری پیاس نے وہ بھی نظارہ دیکھ لیا رواں دواں کوئی دریا سراب جیسا ...