رنگ لایا مرا بے برگ و نوا ہو جانا
رنگ لایا مرا بے برگ و نوا ہو جانا
اتنا آسان نہ تھا اس کا خدا ہو جانا
کون آواز برس بن کے رہا محمل ناز
کس کی قسمت میں ہے صحرا کی صدا ہو جانا
حشر تک بے گنہی ناز کرے گی مجھ پر
وہ مرا تیری نگاہوں میں برا ہو جانا
مجھ پہ وہ وقت پڑا ہے کہ شکایت کیسی
تجھ کو لازم تھا بہ ہر حال خفا ہو جانا
میری تقدیر پہ تہمت ہی اٹھائی جاتی
تجھ کو زیبا نہ تھا یوں خود سے جدا ہو جانا
آج تک یاد ہے کیفیت جاں تیرے حضور
سر سے پا تک وہ مرا دست دعا ہو جانا
شاذؔ کانپ اٹھے مرے ترک محبت کے قدم
وہ کسی پرسش پنہاں کا بلا ہو جانا