Shaz Tamkanat

شاذ تمکنت

حیدرآباد کے ممتاز شاعر

A prominent poet from Hyderabad.

شاذ تمکنت کی غزل

    سنبھل اے قدم کہ یہ کارگاہ نشاط و غم ہے خبر بھی ہے

    سنبھل اے قدم کہ یہ کارگاہ نشاط و غم ہے خبر بھی ہے جسے لوگ کہتے ہیں رہ گزر کسی پا شکستہ کا گھر بھی ہے مجھے مدتوں یہی وہم تھا کہ یہ خاک کیمیا بن گئی اسی کشمکش میں گزر گئی کہ فغاں کروں تو اثر بھی ہے ہمہ انکسار کی کیفیت ہے دم وداع کی بے بسی مجھے یوں پیام سکوں نہ دے تجھے اپنے آپ سے ڈر ...

    مزید پڑھیے

    دل شکستہ ہوئے ٹوٹا ہوا پیمان بنے

    دل شکستہ ہوئے ٹوٹا ہوا پیمان بنے ہم وہی ہیں جو تمہیں دیکھ کے انجان بنے چند یادیں مری زنجیر شب و روز بنیں چند لمحے مرے کھوئے ہوئے اوسان بنے وہ بھی کیا فصل تھی کیا شعلۂ خرمن تھا بلند وہ بھی کیا دن تھے کہ دامن سے گریبان بنے ان کی دوری کا بھی احساں ہے مری سانسوں پر مجھ سے اس طرح وہ ...

    مزید پڑھیے

    مرے نصیب نے جب مجھ سے انتقام لیا

    مرے نصیب نے جب مجھ سے انتقام لیا کہاں کہاں تری یادوں نے ہاتھ تھام لیا فضا کی آنکھ بھر آئی ہوا کا رنگ اڑا سکوت شام نے چپکے سے تیرا نام لیا وہ میں نہیں تھا کہ اک حرف بھی نہ کہہ پایا وہ بے بسی تھی کہ جس نے ترا سلام لیا ہر اک خوشی نے ترے غم کی آبرو رکھ لی ہر اک خوشی سے ترے غم نے انتقام ...

    مزید پڑھیے

    یہی سفر کی تمنا یہی تھکن کی پکار

    یہی سفر کی تمنا یہی تھکن کی پکار کھڑے ہوئے ہیں بہت دور تک گھنے اشجار نہیں یہ فکر کہ سر پھوڑنے کہاں جائیں بہت بلند ہے اپنے وجود کی دیوار دراز قد بہ ادائے خرام کیا کہنا تمام اہل جہاں کے لئے ہے درس وقار یہ دور وہ ہے کہ سب نیم جاں نظر آئے کہ رقص میں ہے اناڑی کے ہاتھ میں تلوار بدلتی ...

    مزید پڑھیے

    جن زخموں پر تھا ناز ہمیں وہ زخم بھی بھرتے جاتے ہیں

    جن زخموں پر تھا ناز ہمیں وہ زخم بھی بھرتے جاتے ہیں سانسیں ہیں کہ گھٹتی جاتی ہیں دن ہیں کہ گزرتے جاتے ہیں دیوار ہے گم صم در تنہا پھر ہوتے چلے ہیں شجر تنہا کچھ دھوپ سی ڈھلتی جاتی ہے کچھ سائے اترتے جاتے ہیں ہم یوں ہی نہیں ہیں سست قدم ہم جانتے ہیں فردا کیا ہے شاید کوئی دے آواز ہمیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے

    کوئی تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے میں بہت دور ہوں نزدیک بلاتا ہے مجھے میں نے محسوس کیا شہر کے ہنگامے میں کوئی صحرا میں ہے، صحرا میں بلاتا ہے مجھے تو کہاں ہے کہ تری زلف کا سایہ سایہ ہر گھنی چھاؤں میں لے جا کے بٹھاتا ہے مجھے اے مرے حال پریشاں کے نگہ دار یہ کیا کس قدر دور سے آئینہ ...

    مزید پڑھیے

    شب وعدہ کہہ گئی ہے شب غم دراز رکھنا

    شب وعدہ کہہ گئی ہے شب غم دراز رکھنا اسے میں بھی راز رکھوں اسے تم بھی راز رکھنا یہ ہے خار خار وادی یوں ہی زخم زخم چلنا یہ ہے پتھروں کی بستی یوں ہی دل گداز رکھنا ہمہ تن جنوں ہوں پھر بھی رہے کچھ تو پردہ داری کہ برا نہیں خرد سے کوئی ساز باز رکھنا مرے ناخن‌ وفا پر کوئی قرض رہ نہ ...

    مزید پڑھیے

    جس طرف جاؤں ادھر عالم تنہائی ہے

    جس طرف جاؤں ادھر عالم تنہائی ہے جتنا چاہا تھا تجھے اتنی سزا پائی ہے میں جسے دیکھنا چاہوں وہ نظر نہ آ سکے ہائے ان آنکھوں پہ کیوں تہمت بینائی ہے بارہا سرکشی و کج کلہی کے با وصف تیرے در پر مجھے دریوزہ گری لائی ہے صدمۂ ہجر میں تو بھی ہے برابر کا شریک یہ الگ بات تجھے تاب شکیبائی ...

    مزید پڑھیے

    جانے والے تجھے کب دیکھ سکوں بار دگر

    جانے والے تجھے کب دیکھ سکوں بار دگر روشنی آنکھ کی بہہ جائے گی آنسو بن کر تو حصار در و دیوار لیے جائے کدھر میرا کیا ہے کہ میں ہوں دشت بہ دل خانہ بہ سر کون جانے مری تنہائی پسندی کیا ہے بس ترے ذکر کا اندیشہ ترے نام کا ڈر یوں بھی اشکوں کا دھندلکا تھا سجھائی نہ دیا کس نے لوٹا دم رخصت ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی بات تھی بات آ گئی جدائی تک

    ذرا سی بات تھی بات آ گئی جدائی تک ہنسی نے چھوڑ دیا لا کے جگ ہنسائی تک بھلے سے اب کوئی تیری بھلائی گنوائے کہ میں نے چاہا تھا تجھ کو تری برائی تک تو چپکے چپکے مروت سے کیوں بچھڑتا ہے مرا غرور بھی تھا تیری کج ادائی تک مجھے تو اپنی ندامت کی داد بھی نہ ملی میں اس کے ساتھ رہا اپنی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4