یہی سفر کی تمنا یہی تھکن کی پکار

یہی سفر کی تمنا یہی تھکن کی پکار
کھڑے ہوئے ہیں بہت دور تک گھنے اشجار


نہیں یہ فکر کہ سر پھوڑنے کہاں جائیں
بہت بلند ہے اپنے وجود کی دیوار


دراز قد بہ ادائے خرام کیا کہنا
تمام اہل جہاں کے لئے ہے درس وقار


یہ دور وہ ہے کہ سب نیم جاں نظر آئے
کہ رقص میں ہے اناڑی کے ہاتھ میں تلوار


بدلتی رت ہے رگ سبزہ میں نمو کم کم
کلی کلی پہ ترا نام لکھ رہی ہے بہار


شکستہ بت ہیں جبیں زخم زخم بت گر کی
سرہانے تیشہ کے لرزیدہ ہے کوئی جھنکار


دکھائی دے تو وہ بس خواب میں دکھائی دے
مرا یہ حال کہ میں مدتوں سے ہوں بیدار


وہ لوگ جو تجھے ہر روز دیکھتے ہوں گے
انہیں خبر نہیں کیا شے ہے حسرت دیدار


ز فرق تا بہ قدم روپ رنگ کی جھنکار
تمام مہر و محبت تمام بوس و کنار


طرح طرح سے کوئی نام شاذؔ لکھتا تھا
ہتھیلیوں پہ حنائی حروف تھے گلکار