سنبھلا نہیں دل تجھ سے بچھڑ کر کئی دن تک
سنبھلا نہیں دل تجھ سے بچھڑ کر کئی دن تک
میں آئینہ تھا بن گیا پتھر کئی دن تک
کیا چیز تھی ہم رکھ کے کہیں بھول گئے ہیں
وہ چیز کہ یاد آئی نہ اکثر کئی دن تک
اے شاخ وفا پھر وہ پرندہ نہیں لوٹا
میں گھر میں تھا نکلا نہیں باہر کئی دن تک
وہ بوجھ کہ تھی جس سے مرے سر کی بلندی
وہ بوجھ گرا اٹھ نہ سکا سر کئی دن تک
ہم نے بھی بہت اس کو بھلانے کی دعا کی
ہم نے بھی بہت دیکھا ہے رو کر کئی دن تک
کہتے ہیں کہ آئینہ بھی دیکھا نہیں اس نے
سنتے ہیں کہ پہنا نہیں زیور کئی دن تک
ہم تان کے سوئے تھے کہ کیوں آئے گا وہ شاذؔ
دیتا رہا دستک وہ برابر کئی دن تک