شارق کیفی کی نظم

    جنازے میں تو آؤ گے نہ میرے

    کبھی میں زندگی کی ناز برداری نہ کر پایا ہمیشہ بیچ میں حائل رہا اک خواب پاگل خواب سوتے جاگتے جو دیکھتا ہوں میں کہ سر ہی سر جنازے میں ہیں میرے اور میں بانوں کی نئی اک چارپائی پر سکوں کے ساتھ لیٹا ہنس رہا ہوں اک ایسی بھیڑ پر جو مجھ کو کاندھا دینے کے لیے آپس میں جھگڑا کر رہی ہے مجھے یہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ سارے لفظ جھوٹے تھے

    محبت کی کمی لفظوں سے پوری کر رہا تھا میں مگر جب آج میں سچ مچ میں اس کو چاہتا ہوں اسے مجھ سے شکایت ہے خموشی کی کوئی بتلائے اس کو یہ خموشی ہی تو سچی ہے وہ سارے لفظ جھوٹے تھے

    مزید پڑھیے

    جنت سے دور

    گواہی حشر کے دن تمام اعضا کے ساتھ ہم انسانوں کی خالی جیب کی بھی مان لی جائے تو ممکن ہے کہ بیڑا پار ہو جائے رضا اور صبر کی تاکید پر وہ صرف اور صرف خالی جیب ہے انسان کی جو بہت کھل کر خدا سے بات کر سکتی ہے شاید وہی ہے جو فرشتوں کی لکھی سیدھی سپاٹ اعمال کی روداد میں بھی نئے کچھ رنگ بھر ...

    مزید پڑھیے

    ایک کینسر کے مریض کی بڑبڑ

    گلے پر لگا کر نشاں جس گھڑی ڈاکٹر نے یہ مجھ سے کہا اور تو سارے پرہیز ختم آپ کے آج سے شیو مت کیجئے گا جب تلک یہ گلے کی سکائی چلے شیو مت کیجئے گا تو ساری مشیت خدا کی سمجھ میں مرے آ گئی ارے مجھ کو داڑھی سے انکار کب تھا جو یہ رخ نکالا گیا میں تو خود شیو کے نام سے یوں بدکتا رہا آج تک جیسے ...

    مزید پڑھیے

    روتا ہوا بکرا

    وہی بکرا مرا مریل سا بکرا جسے ببلو کے بکرے نے بہت مارا تھا وہ بکرا وہ کل پھر خواب میں آیا تھا میرے دہاڑیں مار کر روتا ہوا اور نیند سے اٹھ کر ہمیشہ کی طرح رونے لگا میں خطا میری تھی میں نے ہی لڑایا تھا اسے ببلو کے بکرے سے اسے معلوم تھا پٹنا ہے اس کو مگر پھر بھی وہ اس موٹے سے جا کر بھڑ ...

    مزید پڑھیے

    بیچ بھنور سے لوٹ آؤں گا

    پاگل سمجھا ہے کیا مجھ کو ڈوب مروں میں اور سب اس منظر سے اپنا دل بہلائیں بچوں کو کاندھوں پر لے کر اچک اچک کر مجھ کو دیکھیں ہنسی اڑائیں لاکھ مری اپنی وجہیں ہوں جاں دینے کی لیکن پھر بھی دل میں میرے بھی ہے وہ بے معنی خواہش جاتے جاتے سب کی آنکھیں نم کرنے کی میری سمجھ سے اتنا حق تو ہے جاں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے ہنسنا پڑا آخر

    مجھے ہنسنا پڑا آخر انہیں باتوں پہ جن پر میں بہت ناراض تھا اس سے یہ اک طرفہ محبت یوں بھی اتنا درد دیتی ہے کہ اس میں بیچ کا رستہ کبھی ممکن نہیں ہوتا وہی جھکتا ہے جس کو دوسرا درکار ہوتا ہے کسی قیمت پہ چاہے جو بھی ہو جائے

    مزید پڑھیے

    مجرم ہونے کی مجبوری

    وضو جائے تو جائے فرشتے کچھ بھی لکھ لیں نامۂ اعمال میں میرے مگر منہ سے مرے گالی تو نکلے گی اگر اس تولیے میں چیونٹیاں ہوں گی تھکن سے چور ہو کر جس سے ماتھے کا پسینہ پونچھتا ہوں میں

    مزید پڑھیے

    جیت گیا جیت گیا

    آؤ اب ڈھونڈو مجھے پھسڈی کہہ کے مجھ کو چھیڑنے والو ہراؤ اب مجھے ہاں مجھے بھی کھیل لگتا تھا یہ سب کچھ ابتدا میں مگر یہ بھی تو سوچو مسلسل ہار کوئی کھیل ہے جو کھیل اس کو مان لیتا میں کہاں تک ہارتا میں؟ مرے چھپنے کے سب کونے اجاگر ہو گئے تھے بہت آسان ہوتا جا رہا تھا ڈھونڈنا مجھ کو مجھے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    اک برس اور کٹ گیا شارقؔ روز سانسوں کی جنگ لڑتے ہوئے سب کو اپنے خلاف کرتے ہوئے یار کو بھولنے سے ڈرتے ہوئے اور سب سے بڑا کمال ہے یہ سانسیں لینے سے دل نہیں بھرتا اب بھی مرنے کو جی نہیں کرتا

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3