شکیل حیدر کی غزل

    مرے جذبات سے یہ رات پگھل جائے گی

    مرے جذبات سے یہ رات پگھل جائے گی جسم تو جسم تری روح بھی جل جائے گی آج تو حسن بھی مائل ہے مسیحائی پر آج سے عشق کی تاریخ بدل جائے گی زندگی ریت کی مانند مرے ہاتھ میں ہے دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے پھسل جائے گی لوگ کہتے ہیں ہمیں رسم وفا یاد نہیں چھوڑیئے بات کہیں دور نکل جائے گی وحشت ...

    مزید پڑھیے

    دل کی اس وحشت سرا میں درد کیا جذبات کیا

    دل کی اس وحشت سرا میں درد کیا جذبات کیا ہو زمیں بنجر اگر تو بے بہا برسات کیا کھل گیا تھا اک دریچہ نیند میں تعبیر کا ورنہ اے خواب پریشاں تھی تری اوقات کیا نم ہے کیوں دامن سحر کا شدت احساس سے مل گئی اس کو بھی درد عشق کی سوغات کیا آتش فرقت چھپائے شمع کیوں روتی رہی وصل کی بازی میں اس ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے وہ دشت سنوارا ہے زمانے کے لئے

    ہم نے وہ دشت سنوارا ہے زمانے کے لئے لوگ آتے ہیں جہاں خود کو مٹانے کے لئے ہم سفر اپنی ضرورت سے زیادہ نہ چلے راہ چلتی رہی اقرار نبھانے کے لئے اس کو آتا ہے سوا رسم جدائی کا ہنر در کھلا چھوڑ گیا لوٹ کر آنے کے لئے ہم بھی ہوں خاک نشینوں کی روایت کے امیں چاہے اک مشت ملے خاک اڑانے کے ...

    مزید پڑھیے

    دل یہ کہتا ہے کہ ملنے کی کوئی بات کرے

    دل یہ کہتا ہے کہ ملنے کی کوئی بات کرے کوئی تو آئے جو تجدید ملاقات کرے ہے بہت تیرہ صفت چادر خورشید یہاں دن کو آغوش میں بھر لے تو اسے رات کرے یاد ہے حرف دعا بہر مناجات مگر روز و شب اس کے لیے کون مناجات کرے اس کے جانے پہ تو خاموش رہے گی یہ زباں دل کا معلوم نہیں کتنے سوالات کرے رشک ...

    مزید پڑھیے

    اب تک تھے وابستہ جو الفاظ کے تانوں بانوں سے

    اب تک تھے وابستہ جو الفاظ کے تانوں بانوں سے اپنی قیمت مانگ رہے ہیں بے قدرے انسانوں سے موجوں کے قرطاس پہ دیکھو دست قدرت کا عالم ایک مقالہ لکھتا ہے وہ کتنے ہی عنوانوں سے جب سے ہے سینے کے اندر ہر سو طاری سناٹا وحشت ہے نہ خوف رہا ہے اس دل کو ویرانوں سے کتنے ہی خورشید اگرچہ امیدوں ...

    مزید پڑھیے

    اب نہیں ہوتی ہے تنہائی پہ حیرانی مجھے

    اب نہیں ہوتی ہے تنہائی پہ حیرانی مجھے راس آتی جا رہی ہے دل کی ویرانی مجھے تیشۂ غم سے تراشی جا رہی ہے زندگی رفتہ رفتہ مل رہی ہے شکل انسانی مجھے تازیانے درد کے لگتے رہیں گے عمر بھر دے گئی کیسی سزائیں دل کی نادانی مجھے سرگراں جب تک رہا میں صاحب دستار تھا بیچتی پھرتی ہے اب یہ میری ...

    مزید پڑھیے

    چشم نم کرتی رہی اشک سے فریاد رقم

    چشم نم کرتی رہی اشک سے فریاد رقم تب کہیں جا کے ہوئی درد کی روداد رقم تیری برسوں کی کتابت کہیں برباد نہ ہو دل ناشاد کو اے وقت نہ کر شاد رقم ہر زمانے میں قلم کا یہی دستور رہا قتل ہونے پہ کئے جاتے ہیں اعداد رقم سوئے‌‌ زنداں کا سفر درد نے زنجیر کیا خود بہ خود ہوتی رہی شورش صیاد ...

    مزید پڑھیے

    خامشی جس دم فضا میں رقص فرمانے لگی

    خامشی جس دم فضا میں رقص فرمانے لگی پھول پر شبنم کے گرنے کی صدا آنے لگی محو حیرت ہے نگاہ شوق بھی یہ دیکھ کر ان کے سر پہ دھوپ آئی اور گھٹا چھانے لگی گرمی لب کی ضرورت جب پڑی رخسار کو چشم پر نم حسرتوں کی آگ برسانے لگی رکھ دئے تقدیر کے سارے ستارے توڑ کر جب حقیقت آئنہ قسمت کو دکھلانے ...

    مزید پڑھیے

    کھل گیا راز عیاں ہو گئی عیاریٔ شب

    کھل گیا راز عیاں ہو گئی عیاریٔ شب کتنی سفاک ہے باطن میں ضیا باریٔ شب مہلت عشق کو درکار ہے مرضی اس کی دل کے سودے میں سوا ہوگی خریداریٔ شب کہیں آنسو کہیں آہیں کہیں پامال فضا جس طرف دیکھو نظر آئے سیاہ کاریٔ شب نیند کا کیا ہے وہ سولی پہ بھی آ جائے مگر در نایاب ہوئی جاتی ہے بیداریٔ ...

    مزید پڑھیے

    راس آئی ہے مجھے گردش ایام بہت

    راس آئی ہے مجھے گردش ایام بہت عمر بھر دل نے پئے درد بھرے جام بہت آج پھر خود سے سر راہ ملاقات ہوئی بے سبب خود کو کیا آج بھی بدنام بہت رنگ دیتی ہے شفق زخم جدائی کو مرے یاد آتا ہے کوئی مجھ کو سر شام بہت چند قطرے جو مری چشم تمنا سے گرے دیر سے آئے مگر آئے مرے کام بہت رات بھر ہجر کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2