شکیل حیدر کی غزل

    کن کی منزل پر رکا ہے قافلہ تقدیر کا

    کن کی منزل پر رکا ہے قافلہ تقدیر کا بس کہ ہے ناقد مصور اپنی ہی تصویر کا مل نہ پائے گی رہائی وقت کے زندان سے صورت شام و سحر ہے سلسلہ زنجیر کا زندگی اپنی بسر ہوتی ہمیشہ خواب میں خواب میں کھلتا نہیں عقدہ اگر تعبیر کا وارث کون و مکاں ہیں کہکشاں در کہکشاں کیوں نہ ہو وابستہ ہم سے ...

    مزید پڑھیے

    شدت نفرت ہو دل میں اور عمل نفرین تر

    شدت نفرت ہو دل میں اور عمل نفرین تر خود بخود ہوتے ہیں پھر حالات بھی سنگین تر اتنی اشک آور نگاہوں سے ملی باد صبا ہو گئی ہے شہر کی ساری فضا نمکین تر بانٹتے تھے جو کبھی اب خود سوالی بن گئے دیکھتے ہی دیکھتے سب ہو گئے مسکین تر جب کبھی اس سر زمیں پہ میں نے حق کی بات کی اپنے ہی خوں سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2