اب نہیں ہوتی ہے تنہائی پہ حیرانی مجھے

اب نہیں ہوتی ہے تنہائی پہ حیرانی مجھے
راس آتی جا رہی ہے دل کی ویرانی مجھے


تیشۂ غم سے تراشی جا رہی ہے زندگی
رفتہ رفتہ مل رہی ہے شکل انسانی مجھے


تازیانے درد کے لگتے رہیں گے عمر بھر
دے گئی کیسی سزائیں دل کی نادانی مجھے


سرگراں جب تک رہا میں صاحب دستار تھا
بیچتی پھرتی ہے اب یہ میری ارزانی مجھے


ہیں اجل اور زندگی کے درمیاں دو ہی قدم
فاصلہ لگتا ہے یہ بھی کتنا طولانی مجھے


ناخدا حیرت بداماں دیکھتا ہی رہ گیا
لے گئی ساحل سے آ کے موج طوفانی مجھے


اک سکوں کا سانس لینے کا توقف مل سکے
کاش ہو جائے دکھوں میں اتنی آسانی مجھے


ہاتھ پھیلاتے رہے سارے زمانے میں شکیلؔ
در بدر لے کر پھری ہے تنگ دامانی مجھے