اب تک تھے وابستہ جو الفاظ کے تانوں بانوں سے

اب تک تھے وابستہ جو الفاظ کے تانوں بانوں سے
اپنی قیمت مانگ رہے ہیں بے قدرے انسانوں سے


موجوں کے قرطاس پہ دیکھو دست قدرت کا عالم
ایک مقالہ لکھتا ہے وہ کتنے ہی عنوانوں سے


جب سے ہے سینے کے اندر ہر سو طاری سناٹا
وحشت ہے نہ خوف رہا ہے اس دل کو ویرانوں سے


کتنے ہی خورشید اگرچہ امیدوں کے ڈوب چکے
ایک دیا رکھا ہے روشن لڑنے کو طوفانوں سے


اس کی یادوں سے تم اب تک منہ کو پھیر کے بیٹھے ہو
ایسے کب روٹھا کرتے ہیں گھر آئے مہمانوں سے


اس نے بھی حلقہ میں اپنے فرزانوں کو ڈھونڈ لیا
ہم نے بھی کر لی ہے سنگت صحرا میں دیوانوں سے


ہم تو پتھر کی بستی میں شیشوں کے رکھوالے ہیں
زخموں کی تعداد نہ پوچھو ہم جیسے نادانوں سے


مٹی میں دفنا کر ایسے جھاڑ رہے ہیں ہاتھ سبھی
بوجھ اتارا ہے رشتوں کا جیسے اپنے شانوں سے


رندوں سے اب میخانے کا پوچھو نہ احوال شکیلؔ
رشتہ جب تم توڑ چکے ہو ساقی سے پیمانوں سے