دل یہ کہتا ہے کہ ملنے کی کوئی بات کرے
دل یہ کہتا ہے کہ ملنے کی کوئی بات کرے
کوئی تو آئے جو تجدید ملاقات کرے
ہے بہت تیرہ صفت چادر خورشید یہاں
دن کو آغوش میں بھر لے تو اسے رات کرے
یاد ہے حرف دعا بہر مناجات مگر
روز و شب اس کے لیے کون مناجات کرے
اس کے جانے پہ تو خاموش رہے گی یہ زباں
دل کا معلوم نہیں کتنے سوالات کرے
رشک آتا ہے بہت اس کی مہارت پہ مجھے
میری ہر جیت کو وہ شوخ ادا مات کرے
خواب تعبیر حقیقت میں بدل جائے اگر
شب گزیدہ ہی سہی پھر بھی کرامات کرے
ہر کرن کتنی سیہ بخت نظر آنے لگے
تیرگی جب بھی کبھی روشنی کی بات کرے
روز کرتا ہے وہ غیروں سے ملاقات عبث
اس سے کہہ دو کہ وہ اب خود سے ملاقات کرے
میکدہ اچھا سبو اچھے مگر پھر بھی شکیلؔ
زندگی کیسے کوئی نذر خرابات کرے