خامشی جس دم فضا میں رقص فرمانے لگی

خامشی جس دم فضا میں رقص فرمانے لگی
پھول پر شبنم کے گرنے کی صدا آنے لگی


محو حیرت ہے نگاہ شوق بھی یہ دیکھ کر
ان کے سر پہ دھوپ آئی اور گھٹا چھانے لگی


گرمی لب کی ضرورت جب پڑی رخسار کو
چشم پر نم حسرتوں کی آگ برسانے لگی


رکھ دئے تقدیر کے سارے ستارے توڑ کر
جب حقیقت آئنہ قسمت کو دکھلانے لگی


رتجگوں کے دشت وحشت میں بھٹکتی رہ گئی
نیند بھی آنکھوں کے در پہ آ کے پچھتانے لگی


اس قدر تاریکیاں ہیں روشنی کے روپ میں
تیرگی تیرہ صفت ہونے پہ شرمانے لگی


عمر بھر کرتی رہی منزل ہماری جستجو
جب نظر کے سامنے آئی تو کترانے لگی


دن بھی سارے ایک جیسے رات بھی یکساں شکیلؔ
اس طرح جینے سے اب تو زیست اکتانے لگی