Shakeel Gwaliari

شکیل گوالیاری

شکیل گوالیاری کی غزل

    ہم کب اس راہ سے گزرتے ہیں

    ہم کب اس راہ سے گزرتے ہیں اپنی آوارگی سے ڈرتے ہیں کشتیاں ڈوب بھی تو سکتی ہیں ڈوب کر بھی تو پار اترتے ہیں توڑ کر رشتۂ خلوص احباب آنسوؤں کی طرح بکھرتے ہیں اپنے احساس کی کسوٹی پر ہم بھی پورے کہاں اترتے ہیں چاہے کیسا ہی دور آ جائے اپنے حالات کب سنورتے ہیں سطح پر ہیں حباب کے ...

    مزید پڑھیے

    روح سے کب یہ جسم جدا ہے

    روح سے کب یہ جسم جدا ہے ان باتوں میں کیا رکھا ہے رفتہ رفتہ وہ بھی مجھ کو بھول رہا ہے بھول چکا ہے رت پیراہن بدل رہی ہے پتا پتا ٹوٹ رہا ہے ان آنکھوں کا ہر افسانہ میرے ہی خوابوں کی صدا ہے ہر چہرہ جانا پہچانا شہر ہی اپنا چھوٹا سا ہے

    مزید پڑھیے

    رقص ہستی کے پھسل جانے کا اندیشہ ہے

    رقص ہستی کے پھسل جانے کا اندیشہ ہے باغ ہاتھوں سے نکل جانے کا اندیشہ ہے اب تو وہ سر بھی لگتا ہے ہمارا مطرب راگ جس سر پہ بدل جانے کا اندیشہ ہے رات کو خوف مرا چاند کوئی چھین نہ لے چاند کو رات کے ڈھل جانے کا اندیشہ ہے بوند بھر تیل بچا ہے تو دیا گل کر دو ورنہ بستی کے بھی جل جانے کا ...

    مزید پڑھیے

    کب مرحلۂ غم سے گزرنا نہیں ہوتا

    کب مرحلۂ غم سے گزرنا نہیں ہوتا پل بھر کو سواری سے اترنا نہیں ہوتا اڑنے دو مری خاک سمیٹو گے کہاں تک یکجا ہی نہ ہوتا جو بکھرنا نہیں ہوتا چھت سے کبھی اترا تو نظر آیا فلک پر زینے سے کبھی اس کا اترنا نہیں ہوتا دنیا کا کوئی کام ہو آسان سے آسان ہونا ہو تو ہوتا ہے وگرنہ نہیں ہوتا لاتا ...

    مزید پڑھیے

    زہر غم خوب پیا ہم نے شرابوں سے بچے

    زہر غم خوب پیا ہم نے شرابوں سے بچے جھیل کر کتنے عذابوں کو عذابوں سے بچے سوچنے بیٹھیں تو سوچے ہی چلے جاتے ہیں خوف کانٹوں کا عجب تھا کہ گلابوں سے بچے کتنے معصوم تھے چہرے نہیں دیکھے تم نے وہ جو رہ کر بھی نقابوں میں نقابوں سے بچے جاگتا ہو تو نہ دیکھے کوئی محلوں کی طرف کس طرح سویا ...

    مزید پڑھیے

    جب قافلہ یادوں کا گزرا تو فضا مہکی

    جب قافلہ یادوں کا گزرا تو فضا مہکی محسوس ہوا تیرے قدموں کی صدا مہکی خوابوں میں لیے ہم نے بوسے ترے بالوں کے جب ہجر کی راتوں میں ساون کی گھٹا مہکی مانگی جو دعا ہم نے اس شوخ سے ملنے کی لوبان کی خوشبو سے بڑھ کر وہ دعا مہکی اک نرم سے جھونکے کی نازک سی شرارت سے کیا کیا نہ ہوئی رسوا ...

    مزید پڑھیے

    دولت مرے پیچھے نہ شرافت مرے آگے

    دولت مرے پیچھے نہ شرافت مرے آگے چلتا ہے مرا سایۂ وحشت مرے آگے قدرت نے بنایا ہے مجھے ایسا بیاباں اڑ جاتی ہے صحراؤں کی رنگت مرے آگے دشمن کی نظر آتا ہوں میں جان کا اپنی پھیکی ہے رقیبوں کی رقابت مرے آگے کچھ کرنے نہیں دیتی مری کاہلی مجھ کو بیکار پڑی رہتی ہے فرصت مرے آگے کچھ کھویا ...

    مزید پڑھیے

    شہر کا شہر جانتا ہے مجھے

    شہر کا شہر جانتا ہے مجھے شہر کے شہر سے گلہ ہے مجھے میرا بس ایک ہی ٹھکانا ہے میں کہاں جاؤں گا پتا ہے مجھے روشنی میں کہیں اگل دے گا میرا سایہ نگل گیا ہے مجھے بن گیا ہوں گناہ کی تصویر کوئی چھپ چھپ کے دیکھتا ہے مجھے راستے بھی تو سو گئے ہوں گے اپنے بستر پہ جاگنا ہے مجھے اس کی باتیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3