کب مرحلۂ غم سے گزرنا نہیں ہوتا
کب مرحلۂ غم سے گزرنا نہیں ہوتا
پل بھر کو سواری سے اترنا نہیں ہوتا
اڑنے دو مری خاک سمیٹو گے کہاں تک
یکجا ہی نہ ہوتا جو بکھرنا نہیں ہوتا
چھت سے کبھی اترا تو نظر آیا فلک پر
زینے سے کبھی اس کا اترنا نہیں ہوتا
دنیا کا کوئی کام ہو آسان سے آسان
ہونا ہو تو ہوتا ہے وگرنہ نہیں ہوتا
لاتا ہوں سمجھ سوچ کے ہر بات زباں پر
کہتا ہوں وہی جس سے مکرنا نہیں ہوتا
ایک آدھ کوئی شعر کئی سال میں کہتا
جلدی ہی مجھے کیا تھی جو مرنا نہیں ہوتا