Shakeel Gwaliari

شکیل گوالیاری

شکیل گوالیاری کی غزل

    آوازوں کے جال بچھائے جاتے ہیں

    آوازوں کے جال بچھائے جاتے ہیں کھونے والے اب کیا پائے جاتے ہیں اچھے اچھے لوگوں کی کیا پوچھتے ہو یاد کئے جاتے ہیں بھلائے جاتے ہیں ہنس ہنس کر جو پھول کھلائے تھے تم نے اس موسم میں سب مرجھائے جاتے ہیں سورج جیسے جیسے ڈھلتا جاتا ہے اس کی دیواروں تک سائے جاتے ہیں رشتوں پر اک ایسا وقت ...

    مزید پڑھیے

    نہ صرف یہ کہ زمانے کا ڈھب دکھائی دے

    نہ صرف یہ کہ زمانے کا ڈھب دکھائی دے غزل تو وہ ہے کہ اندر کا سب دکھائی دے بدن کی اس کے کساوٹ ہی کیا قیامت ہے کسی لباس میں دیکھو غضب دکھائی دے میں اپنی عید منا لوں مجھے کسی سے کیا نہ جانے پھر وہ مرا چاند کب دکھائی دے میں اس کو دیکھوں کچھ ایسا کہ دیکھ بھی نہ سکوں وہ اپنے آپ میں چھپ ...

    مزید پڑھیے

    وہ کہاں قصر عالی شان میں خوش

    وہ کہاں قصر عالی شان میں خوش ہم غریبوں کے ہیں گمنام میں خوش دور سے دیکھنے سے لگتے ہیں سب ستارے ہیں آسمان میں خوش دھوپ اسی راستے میں آتی ہے ایک دروازہ ہے مکان میں خوش راہ گیروں کو روک لیتی ہے چارپائی ہے سائبان میں خوش ٹکڑے ٹکڑوں میں بٹ گئی دنیا کچھ پرانے ہیں خاندان میں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دیکھے ادھوراپن ہمارا

    کوئی دیکھے ادھوراپن ہمارا کہ گھر بھی ہے تو بے آنگن ہمارا انہیں ہرگز نہ روکو کھولنے دو انہی بچوں میں ہے بچپن ہمارا ابھی کچھ اور سانسوں کی ہوا دو سلگتا رہ گیا ہے تن ہمارا تمہیں بھی لے چلے پردیس ساجن ذرا لگنے لگا تھا من ہمارا تم آ جاؤ ہرے ہو جائیں گے ہم ہرا پن لے گیا ساون ...

    مزید پڑھیے

    جان کی باری ہے اب دل کا زیاں ایسا نہ تھا

    جان کی باری ہے اب دل کا زیاں ایسا نہ تھا خیر جو کچھ بھی ہوا ہم کو گماں ایسا نہ تھا سخت جیسی اب ہے قدموں میں زمیں ایسی نہ تھی سر پہ جیسا اب ہے بھاری آسماں ایسا نہ تھا اک زمانہ ہو گیا اس راہ سے گزرے ہوئے یہ گلی ایسی نہیں تھی یہ مکاں ایسا نہ تھا تھا خس و خاشاک کی مانند اپنا ہی ...

    مزید پڑھیے

    آج اس بزم میں یوں داد وفا دی جائے

    آج اس بزم میں یوں داد وفا دی جائے اے غم عشق تری عمر بڑھا دی جائے موسم خندۂ گل ہے تو زباں بند رکھیں بات اپنی بھی ہنسی میں نہ اڑا دی جائے عشوۂ ناز و ادا جور و جفا مکر و دغا کیسے جی لیں جو ہر اک بات بھلا دی جائے اس کے غم ہی سے ہے ہر درد کا رشتہ اب تک دل پہ جب چوٹ لگے اس کو دعا دی ...

    مزید پڑھیے

    ہم پر جتنے وار ہوئے بھرپور ہوئے

    ہم پر جتنے وار ہوئے بھرپور ہوئے ہم سے پوچھو کیسے چکناچور ہوئے سنجیدہ لوگوں کا جینا مشکل ہے کھیل تماشے دنیا کا دستور ہوئے میری نظر میں جیسے پہلے تھے اب ہو کون سی دولت پا کر تم مغرور ہوئے یہ تو گلستانوں میں روز کے قصے ہیں پھول کھلے کھل کر شاخوں سے دور ہوئے ہم نے شکیلؔ اک چھوٹی ...

    مزید پڑھیے

    چاک کر کر کے گریباں روز سینا چاہیئے

    چاک کر کر کے گریباں روز سینا چاہیئے زندگی کو زندگی کی طرح جینا چاہیئے خودکشی کے ٹل گئے لمحے تو سوچا مدتوں یہ خیال آیا ہی کیوں تھا زہر پینا چاہیئے مشورہ موجوں سے لوں اس پار جانا ہے مجھے ناخداؤں کا تو کہنا ہے سفینہ چاہیئے باسلیقہ لوگ بھی ہیں بے سلیقہ لوگ بھی کس سے کب ملیے کہاں ...

    مزید پڑھیے

    ہم ٹھہرنے کے نہیں عمر رواں رکھتے ہیں

    ہم ٹھہرنے کے نہیں عمر رواں رکھتے ہیں وہ زمیں گھومتی ہے پاؤں جہاں رکھتے ہیں دیکھتے سب ہیں مگر بند زباں رکھتے ہیں اس طرح شہر میں ہم امن و اماں رکھتے ہیں دل لرزتا ہے تو ڈرتے ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائے شاخ پر ایک ہی تو برگ خزاں رکھتے ہیں ڈھونڈ لیتا ہے ہر ایک شخص ہمیں ہم شاید اپنے ہونے کا ...

    مزید پڑھیے

    میں ہی کشتی بھی ہوں ملاح بھی طوفان بھی ہوں

    میں ہی کشتی بھی ہوں ملاح بھی طوفان بھی ہوں اور اب ڈوب رہا ہوں تو پریشان بھی ہوں میں جو اوروں کو دکھاتا ہوں اس آئینے میں اپنا چہرہ نظر آیا ہے تو حیران بھی ہوں حال یہ کیسا فقیروں سا بنا رکھا ہے کون کہہ دے گا کسی وقت کا سلطان بھی ہوں باریابی کی تمنا میں پڑا ہوں در پر بیٹھا ہوتا تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3