زہر غم خوب پیا ہم نے شرابوں سے بچے
زہر غم خوب پیا ہم نے شرابوں سے بچے
جھیل کر کتنے عذابوں کو عذابوں سے بچے
سوچنے بیٹھیں تو سوچے ہی چلے جاتے ہیں
خوف کانٹوں کا عجب تھا کہ گلابوں سے بچے
کتنے معصوم تھے چہرے نہیں دیکھے تم نے
وہ جو رہ کر بھی نقابوں میں نقابوں سے بچے
جاگتا ہو تو نہ دیکھے کوئی محلوں کی طرف
کس طرح سویا ہوا آدمی خوابوں سے بچے
اس حکایت میں کوئی جھوٹ نہ کر دے شامل
اس میں سچائی اگر ہے تو کتابوں سے بچے
کاش الٹ دے کوئی صحرا میں سمندر لا کر
قافلہ ڈوب ہی جائے تو سرابوں سے بچے