دولت مرے پیچھے نہ شرافت مرے آگے
دولت مرے پیچھے نہ شرافت مرے آگے
چلتا ہے مرا سایۂ وحشت مرے آگے
قدرت نے بنایا ہے مجھے ایسا بیاباں
اڑ جاتی ہے صحراؤں کی رنگت مرے آگے
دشمن کی نظر آتا ہوں میں جان کا اپنی
پھیکی ہے رقیبوں کی رقابت مرے آگے
کچھ کرنے نہیں دیتی مری کاہلی مجھ کو
بیکار پڑی رہتی ہے فرصت مرے آگے
کچھ کھویا ہوا ہے جو کسی کو نہیں ملتا
پھرتے ہیں پریشاں قد و قامت مرے آگے
جب سے یہ کھلا مجھ پہ کہ میں ہوں نہیں کچھ
تب سے نہ جہنم ہے نہ جنت مرے آگے
ہجرت کا کئی بار کیا میں نے ارادہ
ہر بات شکیلؔ آ گیا بھارت مرے آگے