میں ہی کشتی بھی ہوں ملاح بھی طوفان بھی ہوں

میں ہی کشتی بھی ہوں ملاح بھی طوفان بھی ہوں
اور اب ڈوب رہا ہوں تو پریشان بھی ہوں


میں جو اوروں کو دکھاتا ہوں اس آئینے میں
اپنا چہرہ نظر آیا ہے تو حیران بھی ہوں


حال یہ کیسا فقیروں سا بنا رکھا ہے
کون کہہ دے گا کسی وقت کا سلطان بھی ہوں


باریابی کی تمنا میں پڑا ہوں در پر
بیٹھا ہوتا تو سمجھ لیتا کہ دربان بھی ہوں


بے بلائے چلا آتا میں نہ کہتا تجھ سے
آج تو مہرباں ہو جا ترا مہمان بھی ہوں


آج تک میری غزل نے نہیں پہچانا مجھے
جبکہ شاعر ہی نہیں صاحب دیوان بھی ہوں