بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا
بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دور ہٹ گیا پھر درمیان عقل و جنوں جنگ چھڑ گئی پھر مجمع خواص گروہوں میں بٹ گیا کیا اب بھی تیری خاطر نازک پہ بار ہوں پتھر نہیں کہ میں ترے رستے سے ہٹ گیا یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر یا اتنا نرم دل کہ رگ گل سے کٹ گیا وہ لمحۂ ...