Shakeb Jalali

شکیب جلالی

معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی

Famous poet from Pakistan. Committed suicide at an early age.

شکیب جلالی کی غزل

    بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا

    بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دور ہٹ گیا پھر درمیان عقل و جنوں جنگ چھڑ گئی پھر مجمع خواص گروہوں میں بٹ گیا کیا اب بھی تیری خاطر نازک پہ بار ہوں پتھر نہیں کہ میں ترے رستے سے ہٹ گیا یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر یا اتنا نرم دل کہ رگ گل سے کٹ گیا وہ لمحۂ ...

    مزید پڑھیے

    سر رہ اب نہ یوں مجھ کو پکارو تم ہی آ جاؤ

    سر رہ اب نہ یوں مجھ کو پکارو تم ہی آ جاؤ ذرا زحمت تو ہوگی راز دارو تم ہی آ جاؤ کہیں ایسا نہ ہو دم توڑ دیں حسرت سے دیوانے قفس تک ان سے ملنے کو بہارو تم ہی آ جاؤ بھروسا کیا سفینے کا کئی طوفان حائل ہیں ہماری نا خدائی کو کنارو تم ہی آ جاؤ ابھی تک وہ نہیں آئے یقیناً رات باقی ہے ہماری غم ...

    مزید پڑھیے

    ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا

    ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں پہنچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر یا اتنا نرم دل کہ رگ گل سے کٹ گیا بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک ستون پتلی میں میری آنکھ کی صحرا سمٹ ...

    مزید پڑھیے

    غم دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں

    غم دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں جو کناروں میں سمٹ جائے وہ دریا ہی نہیں اوس کی بوندوں میں بکھرا ہوا منظر جیسے سب کا اس دور میں یہ حال ہے میرا ہی نہیں برق کیوں ان کو جلانے پہ کمر بستہ ہے میں تو چھاؤں میں کسی پیڑ کی بیٹھا ہی نہیں اک کرن تھام کے میں دھوپ نگر تک پہنچا کون سا عرش ہے جس ...

    مزید پڑھیے

    بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا

    بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا رہ تو گئی فریب مسیحا کی آبرو ہر چند غم کے ماروں کا چارہ نہ ہو سکا خوش ہوں کہ بات شورش طوفاں کی رہ گئی اچھا ہوا نصیب کنارا نہ ہو سکا بے چارگی پہ چارہ گری کی ہیں تہمتیں اچھا کسی سے عشق کا مارا نہ ہو سکا کچھ عشق ...

    مزید پڑھیے

    خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے

    خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ہو جائے میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے مثال ایسی ہے اس دور خرد کے ہوش مندوں ...

    مزید پڑھیے

    بے جا نوازشات کا بار گراں نہیں

    بے جا نوازشات کا بار گراں نہیں میں خوش ہوں اس لیے کہ کوئی مہرباں نہیں آغوش حادثات میں پائی ہے پرورش جو برق پھونک دے وہ مرا آشیاں نہیں کیوں ہنس رہے ہیں راہ کی دشواریوں پہ لوگ ہوں بے وطن ضرور مگر بے نشاں نہیں گھبرائیے نہ گردش ایام سے ہنوز ترتیب فصل‌ گل ہے یہ دور خزاں نہیں کچھ ...

    مزید پڑھیے

    دل کے ویرانے میں اک پھول کھلا رہتا ہے

    دل کے ویرانے میں اک پھول کھلا رہتا ہے کوئی موسم ہو مرا زخم ہرا رہتا ہے شب کو ہوگا افق جاں سے ترا حسن طلوع یہ وہ خورشید ہے جو دن کو چھپا رہتا ہے یہی دیوار جدائی ہے زمانے والو ہر گھڑی کوئی مقابل میں کھڑا رہتا ہے کتنا چپ چاپ ہی گزرے کوئی میرے دل سے مدتوں ثبت نشان کف پا رہتا ہے سارے ...

    مزید پڑھیے

    وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

    وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا ہی نہیں اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت نہ جانے رت کا تصرف تھا یا نظر کا فریب کلی وہی تھی مگر رنگ جھلملائے بہت ہوا کا رخ ہی اچانک بدل گیا ورنہ مہک کے قافلے صحرا کی سمت آئے ...

    مزید پڑھیے

    دوستی کا فریب ہی کھائیں

    دوستی کا فریب ہی کھائیں آؤ کاغذ کی ناؤ تیرائیں ہم اگر رہروی کا عزم کریں منزلیں کھنچ کے خود چلی آئیں ہم کو آمادۂ سفر نہ کرو راستے پر خطر نہ ہو جائیں ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں مطربہ ایسا گیت چھیڑ کہ ہم زندگی کے قریب ہو جائیں ان بہاروں کی آبرو رکھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4