Shakeb Jalali

شکیب جلالی

معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی

Famous poet from Pakistan. Committed suicide at an early age.

شکیب جلالی کی غزل

    اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے

    اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند مٹھی میں اپنی بند سمندر لگا مجھے مرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سرخ پھول تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے اب یہ بتا کہ روح کے شعلے کا کیا ہے رنگ مرمر کا یہ لباس تو سندر لگا ...

    مزید پڑھیے

    غم حیات کی لذت بدلتی رہتی ہے

    غم حیات کی لذت بدلتی رہتی ہے بقدر فکر شکایت بدلتی رہتی ہے حریم راز امید کرم کہ ذوق نمود خلوص دوست کی قیمت بدلتی رہتی ہے کبھی غرور کبھی بے رخی کبھی نفرت شبیہ جوش محبت بدلتی رہتی ہے نہیں کہ تیرا کرم مجھ کو ناگوار نہیں یہ غم ہے وجہ مسرت بدلتی رہتی ہے اگر فریب حسیں ہو تو پھر فریب ...

    مزید پڑھیے

    تو نے کیا کیا نہ اے زندگی دشت و در میں پھرایا مجھے

    تو نے کیا کیا نہ اے زندگی دشت و در میں پھرایا مجھے اب تو اپنے در و بام بھی جانتے ہیں پرایا مجھے اور بھی کچھ بھڑکنے لگا میرے سینے کا آتش کدہ راس تجھ بن نہ آیا کبھی سبز پیڑوں کا سایا مجھے ان نئی کونپلوں سے مرا کیا کوئی بھی تعلق نہ تھا شاخ سے توڑ کر اے صبا خاک میں کیوں ملایا ...

    مزید پڑھیے

    دشت و صحرا اگر بسائے ہیں

    دشت و صحرا اگر بسائے ہیں ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں آپ نغموں کے منتظر ہوں گے ہم تو فریاد لے کے آئے ہیں ایک اپنا دیا جلانے کو تم نے لاکھوں دیے بجھائے ہیں کیا نظر آئے گا ابھی ہم کو یک بیک روشنی میں آئے ہیں یوں تو سارا چمن ہمارا ہے پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں

    مزید پڑھیے

    دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا

    دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا پیروں میں زنجیریں ڈالیں ہاتھوں میں کشکول دیا اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا یہ کس نے رو رو کے گگن میں اپنا کاجل گھول دیا یہ کیا کم ہے اس نے بخشا ایک مہکتا درد مجھے وہ بھی ہیں جن کو رنگوں کا اک چمکیلا خول دیا مجھ سا بے مایہ ...

    مزید پڑھیے

    کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی

    کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کر ہاتھ کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے ...

    مزید پڑھیے

    خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں

    خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں جھکی چٹان پھسلتی گرفت جھولتا جسم میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں زمانے بھر سے نرالی ہے آپ کی منطق ندی کو پار کیا کس نے الٹی کشتی ...

    مزید پڑھیے

    میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں

    میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں صحرا کی بود و باش ہے اچھی نہ کیوں لگے سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے مصروف ہوں ابھی عمل انعکاس ...

    مزید پڑھیے

    جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

    جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے نہ اتنی تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا انہیں تو دن کا بھی سایا دکھائی دیتا ہے یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے

    بجھے بجھے سے شرارے مجھے قبول نہیں

    بجھے بجھے سے شرارے مجھے قبول نہیں سواد شب میں ستارے مجھے قبول نہیں یہ کوہ و دشت بھی آئینۂ بہار بنے فقط چمن کے نظارے مجھے قبول نہیں تمہارے ذوق کرم پر بہت ہوں شرمندہ مراد یہ ہے سہارے مجھے قبول نہیں مثال موج سمندر کی سمت لوٹ چلو سکوں بہ دوش کنارے مجھے قبول نہیں میں اپنے خوں سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4