Shakeb Jalali

شکیب جلالی

معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی

Famous poet from Pakistan. Committed suicide at an early age.

شکیب جلالی کی غزل

    جس دم قفس میں موسم گل کی خبر گئی

    جس دم قفس میں موسم گل کی خبر گئی اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی دھندلا گئے نقوش تو سایہ سا بن گیا دیکھا کیا میں ان کو جہاں تک نظر گئی بہتر تھا میں جو دور سے پھولوں کو دیکھتا چھونے سے پتی پتی ہوا میں بکھر گئی کتنے ہی لوگ صاحب احساس ہو گئے اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی تنہائیوں ...

    مزید پڑھیے

    کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے

    کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے بدل رہا ہے جنوں زاویے اڑانوں کے یہ دل کا زخم ہے اک روز بھر ہی جائے گا شگاف پر نہیں ہوتے فقط چٹانوں کے چھلک چھلک کے بڑھا میری سمت نیند کا جام پگھل پگھل کے گرے قفل قید خانوں کے ہوا کے دشت میں تنہائی کا گزر ہی نہیں مرے رفیق ہیں مطرب گئے زمانوں ...

    مزید پڑھیے

    ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر

    ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتہ دیکھو ہوا کا نقش کبھی بادبان پر یارو میں اس نظر کی بلندی کو کیا کروں سایہ بھی اپنا دیکھتا ہوں آسمان پر کتنے ہی زخم ...

    مزید پڑھیے

    آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

    آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ ...

    مزید پڑھیے

    جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے

    جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے فوارے کی طرح نہ اگل دے ہر ایک بات کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4