میلا کپڑا
بادل بادل اس کے قطرے
گہری اداس چھاؤں ہوائیں بیوہ کی چوڑیوں کی طرح سے چھن چھن
ٹوٹ رہی ہیں
یہ کیسا ساون ہے دل میں کالا ناگ یاں ڈنک مارتا ہے
میں بادل روؤں کہ خون تھوکوں
خون کہ قطرہ قطرہ رات کے خوف سے خشک ہوا ہے
رات مجھے اپنے ہاتھ سے مسل رہی ہے
میں میلا کپڑا ہوں جو نہ پہننے کے کام آئے نہ ہی رکھنے کے
مجھ کو جلا دو میری راکھ ہوا میں اڑا دو
اس راکھ کے گہرے اور سیاہ بادل
اس شہر کی چھتوں پر برسیں گے جن کے کوڑھ زدہ وجود
مدت سے روشنی کو ترس گئے ہیں
اور جن کو محبت کی بارش ہی صحت مند کر سکتی ہے
وہ سمجھیں تو