لہو کا خراج

زرد ہاتھوں پر کالی لکیریں پھیل رہی ہیں
دل کے نہال پر جذبوں کے پنچھی کالی اندھیری راتوں میں ناچ ناچ
کے تھک جاتے ہیں
آنکھ کنارے آ گئی کائی بڑھتی ہے
روشن صبحوں کی آوازیں بے بس چیخوں کو کیسے روکیں
ہر دن اپنے ہونے کی پہچان میں گم صم شرمندہ
کونوں میں منہ کو چھپائے روتا ہے
کس کی آس میں ٹھنڈی پروا آنگن آنگن گھوم رہی ہے
پلکیں پونچھو
ورنہ ہر ایک آہٹ اپنے چہرے پر خوشیوں کو سجائے ہم کو لوٹنے
آئے گی
ہم پھر فاحشہ آس کے گھنگرو کی ہر تال پر جی اٹھیں گے
ہولے ہولے پلکیں کھولے دروازے سے جھانکیں گے
اک پل سکھ کا لمحہ
ہم سے ساری عمروں ساری گھڑیوں کا لہو نچوڑےگا
ہم کو خون تھکوائےگا