ایک اور موت

کٹ گیا دن ڈھلی شام شب آ گئی
پھر زمیں اپنے محور سے ہٹنے لگی
چاندنی کروٹیں پھر بدلنے لگی
آہٹوں کے سسکتے ہوئے شور سے
پھر مکاں بھر گیا
زہر سپنوں کا پی کر
کوئی آج کی رات پھر مر گیا!