ایک کالی نظم

میں کورے کاغذ پر لکھوں پھر ایک کالی نظم
الکھ جگاتے سناٹوں سے پھر سے سجاؤں بزم
گدر امرودوں کی خوشبو پاگل کر جائے
میری ان خالی آنکھوں کو جل تھل کر جائے
دور درندوں کی آوازیں خود سے لڑتی ہوں
میرے اس کے بیچ میں لمبی راتیں پڑتی ہوں


شکنوں سے عاری اک بستر مجھ کو تکتا ہو
جسم مرا جب آدھا سوتا آدھا جگتا ہو
تب میں کروں یہ عزم
کہ لکھوں کوئی کالی نظم