Shahram Sarmadi

شہرام سرمدی

شہرام سرمدی کی نظم

    کل شام

    کل شام ٹی وی پر بدلتے وقت کے موضوع پہ تم نے کہی تھیں جتنی بھی باتیں بڑی دلچسپ تھیں وہ اور مدلل بھی اسی دوران اک خواہش ہوئی دل میں مری ٹیبل پہ جو تصویر رہتی ہے تمہاری اور ٹی وی پر دکھائی دینے والے چہرے کو اک بار دیکھوں تو ذرا لیکن مری عینک کہیں گم ہو گئی تھی

    مزید پڑھیے

    موسم ہجر میں

    تمہاری آنکھ بھی ہر روز کاجل سے سنورتی ہے مجھے بھی شیو کرنے میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا

    مزید پڑھیے

    شکست

    مجھے اپنے بیرون کی جستجو تھی کہ وہ آنکھ سے اپنی دیکھا تھا میں نے جزائر وہ سب ریختہ نا رسیدہ جزائر خلاؤں میں بکھرے گرے زیست آثار کے شائبے جن میں تھے اب مری جستجو یا ہوس کا ہدف بن گئے تھے میں ان کی تمنا لیے دل کش و مست راہوں میں اک عمر گھوما کیا ماہ و انجم کو چوما کیا اور کل شام بعد ...

    مزید پڑھیے

    خلا سا کہیں ہے

    خیابان دانش گہہ ممبئی سے یہاں راج پتھ کے سفر تک ہمیشہ مرے زیر پا شاہراہیں رہی ہیں اعلیٰ عمارات سرسبز میداں دو رویہ قطاروں میں اشجار فرحاں تمدن کے غماز بے مثل نقل و حمل کے ذرائع تحفظ کو جاں باز سر باز ہر گام آنکھیں بچھائے میں اک بچہ قریۂ دور افتادہ لیکن مرے بخت میں آج تک پائے ...

    مزید پڑھیے

    لوح ایام

    عقائد کرم خوردہ خط نامعلوم میں لکھی کتابوں میں کہیں محفوظ ہیں معلوم کی بنیاد نامعلوم پر اک مضحکہ یہ سلسلہ منسوخ کب ہوگا میں جو کچھ مانتا ہوں جانتا ہوگا مجھے یہ جاننا ہوگا کہ میں اک دن درون قبر زیر خاک خاک سرد و نا ہموار میں سو جاؤں گا اور میرے چہرے ہونٹوں آنکھوں میں چلیں گی ...

    مزید پڑھیے

    وہ بات

    وہ بات اگر میں خدا سے کہتا میں جانتا ہوں وہ سن بھی لیتا (جواب دینے کی کوئی میعاد طے نہیں ہو تو صرف سننے میں حرج کیا ہے) میں مانتا ہوں جواب وہ ایک روز دیتا پہ خواہشوں نے مری سماعت کو معتبر ہی کہاں ہے رکھا یہ خواہشیں ہیں کہ میرے کانوں میں روئی سا کچھ نہاں ہے رکھا میں سوچتا ہوں وہ بات ...

    مزید پڑھیے

    کتاب گمراہ کر رہی ہے

    کتاب گمراہ کر رہی ہے پہ اک یقیں ہے کہ اتنی گمراہیوں کے پیچھے کوئی تو اک راہ ہوگی جو منزلوں سے نہیں ملے گی سفر پہ جو گامزن رکھے گی یہ شرک کہنہ سفر کی وحدانیت کو مجروح کر رہا ہے کہاں کی منزل کہاں ہے منزل یہ شرک کے ہیں سراب سارے ہم آپ ہیں محو خواب سارے یہ شرک افیون بن کے خوں میں گھلا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا

    نیاز مندوں کی بھیڑ ہے اک قطار اندر قطار سارے کھڑے ہوئے ہیں میں فاصلے پر ہوں سوچتا ہوں کہ دست خالی کے اس سفر میں کمانا کیا اور گنوانا کیا ہے میں اس مقام عجیب یعنی 'کمانا کیا اور گنوانا کیا ہے' پہ جب پہنچتا ہوں دیکھتا کیا ہوں میں اسی دائرے کے اوپر کھڑا ہوا ہوں جہاں میں کل تھا جو فرق ...

    مزید پڑھیے

    تجزیہ

    آج جس تناظر میں کائنات کو دیکھا ہر طرح مکمل تھی پہلے اتنی شدت سے کب خیال آیا تھا اس قدر اکیلا ہوں

    مزید پڑھیے

    منکر حق

    اک آواز ابھرتی آ رہی ہے دودھیا سی روشنی اک پردۂ بینائی سے ہو کر گزرتی گزرتی جا رہی ہے سلب ہوتی جا رہی ہے قوت انکار بھی اقرار بھی کچھ ہو رہا ہے یا کہوں کچھ ہے نہیں معلوم کیا ہے اور کیوں کچھ ہے اک انبوہ فراواں جوق اندر جوق سب افراد اقرا کی طرف جاتے ہوئے اور میں ادھر غار حرا کی چہل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2