میں واپس آؤں گا
غار حرائے شاعری میں
بیٹھنے جاتا ہوں میں
اور میں حصار ذات بھی کر کے رکھوں گا
اس حصار ذات کے باہر
کوئی بھی داشتہ شہرت کی
شہر نو لگا بیٹھے نہ اپنا
دیکھتے رہنا
نہ کرنا انتظار اس کا
کہ میں تازہ صحیفہ لانے والا ہوں
کہ ہر تازہ صحیفہ
ایک دن منسوخ ہونا ہے
اسے وہ معنی و مفہوم کھونا ہے
جو اصل مدعا ہے
میں واپس آؤں گا
اور میں 'کتاب ذات' اک ہم راہ لاؤں گا
'کتاب ذات' کی ہر آیت
انسانی مسائل کا بیاں ہوگی
تلاش حل کے ماروں کی
امیدوں کا زیاں ہوگی
مسائل جاوداں ہیں
ذات کا اصل بیاں ہیں
اور فرار ان سے بلا ہے
اور یہی رمز تلاش 'آں خدا' ہے
اور تلاش 'آں خدا' آئینہ ہائے زندگی
اور زندگی غار حرا ہے ذات انساں کی
اسی غار حرا میں جب
میسر ذات آئے گی
میں واپس آؤں گا
اور میں 'کتاب ذات' اک ہم راہ لاؤں گا
کوئی بھی داشتہ شہرت کی
شہر نو لگا بیٹھے نہ اپنا
دیکھتے رہنا