شاہد جمیل کی غزل

    مری نظر کہ طرح دل پرند اوجھل ہے

    مری نظر کہ طرح دل پرند اوجھل ہے ہر ایک خواب کا حاصل پرند اوجھل ہے شجر جو کہہ نہ سکے آسماں وہی سن لے یقیں ہے وہم کی منزل پرند اوجھل ہے شفق شفق وہی سرخی اڑان کی تعبیر افق افق وہی محفل پرند اوجھل ہے صدا میں سمت نہیں بازگشت لا محدود سفر کی شرط میں شامل پرند اوجھل ہے بھنور کا کام ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کہ کشتیٔ وحشت میں بادبان نہیں

    نہیں کہ کشتیٔ وحشت میں بادبان نہیں ملال یہ ہے کہ ساحل پہ وہ مکان نہیں کہیں پہ ہوگا کوئی چاند ہم کو کیا معلوم ہمارے کمرے کی کھڑکی میں آسمان نہیں ہوا کے رخ پہ لویں متحد نہیں ورنہ ابھی چراغوں میں ایسا نہیں کہ جان نہیں یہ کیسا شہر ہے کس شہریار سے پوچھوں یہ کیسی میز پہ ہوں جس پہ ...

    مزید پڑھیے

    محبت ہے مگر دھوکا نہیں ہے

    محبت ہے مگر دھوکا نہیں ہے یہ اس سیارے کا قصہ نہیں ہے کہیں دریا کہیں صحرا نہیں ہے ہر اک رستے میں اک رستہ نہیں ہے اسے میں کیوں پکارے جا رہا ہوں وہی تو ہے جو کچھ سنتا نہیں ہے جسے چاہے جہاں پہنچا کے رکھ دے مقدر پر کوئی پہرہ نہیں ہے یہاں ہیں سینکڑوں ہم نام میرے مگر کوئی مرے جیسا ...

    مزید پڑھیے

    ہزاروں سائٹیں ایسی کہ ہر سائٹ پہ دم نکلے

    ہزاروں سائٹیں ایسی کہ ہر سائٹ پہ دم نکلے نہ پوچھو کس طرح پھر سائبر کیفے سے ہم نکلے سب عاشق تھک گئے اپلوڈ کر کے اپنی سائٹ پر وصال یار کی سی ڈی میں سو سو پیچ و خم نکلے وہاں اب ہر طرف کمپیوٹروں کے چوہے پھرتے ہیں مرے لکھنے کے کمرے سے سبھی کاغذ قلم نکلے عدو کا پاسورڈ اف کس بلا کا ...

    مزید پڑھیے

    یوں اپنے خوابوں میں گرتا سنبھلتا رہتا ہوں

    یوں اپنے خوابوں میں گرتا سنبھلتا رہتا ہوں میں تیری یاد سے آگے نکلتا رہتا ہوں وہ میری نیندوں میں اترے تو کیوں نہ تھک جائے میں اپنے خوابوں کے منظر بدلتا رہتا ہوں میں ڈھونڈ لیتا ہوں ہر بار کوئی اوس کی بوند پھر اس کی یاد کی بھٹی میں جلتا رہتا ہوں وہ ایک نام جو بے چین کرتا رہتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2