محبت ہے مگر دھوکا نہیں ہے
محبت ہے مگر دھوکا نہیں ہے
یہ اس سیارے کا قصہ نہیں ہے
کہیں دریا کہیں صحرا نہیں ہے
ہر اک رستے میں اک رستہ نہیں ہے
اسے میں کیوں پکارے جا رہا ہوں
وہی تو ہے جو کچھ سنتا نہیں ہے
جسے چاہے جہاں پہنچا کے رکھ دے
مقدر پر کوئی پہرہ نہیں ہے
یہاں ہیں سینکڑوں ہم نام میرے
مگر کوئی مرے جیسا نہیں ہے
جو ہم تک آ رہا ہے تیرے گھر سے
یہی اک راستہ سیدھا نہیں ہے
دلیلوں کے سہارے جینے والے
تری دیوانگی میں کیا نہیں ہے