نہیں کہ کشتیٔ وحشت میں بادبان نہیں

نہیں کہ کشتیٔ وحشت میں بادبان نہیں
ملال یہ ہے کہ ساحل پہ وہ مکان نہیں


کہیں پہ ہوگا کوئی چاند ہم کو کیا معلوم
ہمارے کمرے کی کھڑکی میں آسمان نہیں


ہوا کے رخ پہ لویں متحد نہیں ورنہ
ابھی چراغوں میں ایسا نہیں کہ جان نہیں


یہ کیسا شہر ہے کس شہریار سے پوچھوں
یہ کیسی میز پہ ہوں جس پہ میزبان نہیں


نہ اس کی آنکھ میں موتی نہ میرے خواب میں جھیل
تماشہ اب کے برس کوئی درمیان نہیں


میں اس کو سوچوں گا اور دل کو کچھ نہیں ہوگا
یقین یوں ہے کہ اب کے کوئی گمان نہیں