Shahid Aziz

شاہد عزیز

  • 1947

شاہد عزیز کی نظم

    وقت

    وقت اپنے ساتھ سب خواہشیں سمیٹ کر چلا گیا جنگلوں کی دھوپ میں راستے بکھر گئے تم کدھر چلے گئے میں کہاں پہ آ گیا ہر طرف تھی روشنی پر دکھائی کیا دیا وقت اپنے ساتھ سب خواہشیں سمیٹ کر چلا گیا

    مزید پڑھیے

    یہ وقت ہے زوال کا

    بستیاں اجڑ گئیں خاک و خوں سے بھر گئیں مکین کیا مکان کیا زمین و آسمان کیا سورجوں کی آگ میں صدائیں سب جھلس گئیں روشنی کے شہر میں تیرگی اتر گئی زندگی بکھر گئی یہ وقت ہے زوال کا یہ وقت ہے زوال کا

    مزید پڑھیے

    نام

    ہزاروں برس پہلے کی بات ہے کہ جب میں کسی چیز کو کسی نام سے بھی نہیں جانتا تھا تو پھر میں ہر اک چیز کو نام دینے لگا مگر آج جب میں نے خود کو پکارا تو حیران ہوں کہ میں اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا ہوں مرا نام کیا ہے میں کون ہوں

    مزید پڑھیے

    علامت

    سفر زندگی کی علامت ہے لیکن سبھی راستے کھوٹے سکوں کی طرح مری جیب میں جانے کب سے پڑے ہیں ہواؤں میں پیلا دھواں بھر گیا ہے کئی سال پہلے میں ان سے ملا تھا وہ جن کی راہوں میں تھی روشنی انہوں نے کہا تھا سفر زندگی کی علامت ہے چلتے رہو مگر آج میں اس جگہ آ گیا ہوں جہاں کچھ نہیں ہے ہواؤں میں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے آواز مت دینا

    مجھے ایسی زمینوں سے کبھی آواز مت دینا جہاں پر خواب سارے ٹوٹ جاتے ہیں جہاں کے لوگ ہاتھوں کی لکیروں سے سیاہی دھو نہیں سکتے جہاں کے آسمانوں میں کہیں سورج نہیں ہوتا کوئی رستہ نہیں ملتا گھنے تاریک جنگل سے نکلنے کا مجھے ایسی زمینوں سے کبھی آواز مت دینا ہوا ہو یا کہ پانی ہو صدا ہو یا کہ ...

    مزید پڑھیے