Shahbaz Nayyar

شہباز نیّر

  • 1983

شہباز نیّر کی غزل

    وہ جو اک پھول ہے پتھر بھی تو ہو سکتا ہے

    وہ جو اک پھول ہے پتھر بھی تو ہو سکتا ہے نرم لہجہ کبھی خنجر بھی تو ہو سکتا ہے کیا ضروری ہے کہ چاہت میں وہ سینے سے لگے اس لپٹنے کا سبب ڈر بھی تو ہو سکتا ہے دور سے پھول جسے آپ نے بھجوائے ہیں آپ سے مل کے وہ بہتر بھی تو ہو سکتا ہے ہم جسے آپ کے آنچل کی دھنک سمجھے ہیں کوئی خوش رنگ سا منظر ...

    مزید پڑھیے

    جو میری آنکھوں سے جھانکتی ہے تری کہانی ہے یا نہیں ہے

    جو میری آنکھوں سے جھانکتی ہے تری کہانی ہے یا نہیں ہے اگر نہیں ہے تو پھر بتاؤ یہ رائیگانی ہے یا نہیں ہے کسی کے شجرے میں کیا لکھا ہے مجھے غرض ہی نہیں ہے اس سے زباں کھلے گی تو علم ہوگا وہ خاندانی ہے یا نہیں ہے میں اپنی تنہائی تن پہ اوڑھے پلٹ رہا ہوں یہ دیکھنے کو وہ آج بھی اپنی بے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی مہندی کا رنگ ہاتھوں سے دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

    کسی کی مہندی کا رنگ ہاتھوں سے دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی وہ دل سے چاہے جو میرا ہونا تو ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی جو شام ڈھلتے ہی میری آنکھوں میں جھلملاتا ہے چاند بن کر وہ اپنے سینے میں میری دھڑکن سمو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی جو اپنے زخموں کو میری نظروں سے دور رکھنے کا سوچتا ...

    مزید پڑھیے

    وہ ثمر تھا میری دعاؤں کا اسے کس نے اپنا بنا لیا

    وہ ثمر تھا میری دعاؤں کا اسے کس نے اپنا بنا لیا مری آنکھ کس نے اجاڑ دی مرا خواب کس نے چرا لیا تجھے کیا بتائیں کہ دل نشیں ترے عشق میں تری یاد میں کبھی گفتگو رہی پھول سے کبھی چاند چھت پہ بلا لیا مجھے پہلے پہلے جو دیکھ کر ترا حال تھا مجھے یاد ہے کبھی جل گئیں تری روٹیاں کبھی ہاتھ تو ...

    مزید پڑھیے

    میں پور پور تلک عشق میں نکھرنے لگا

    میں پور پور تلک عشق میں نکھرنے لگا ترا وصال محبت میں رنگ بھرنے لگا تبھی سے میرے بزرگوں کو فکر ہونے لگی میں ایک دن میں کئی بار جب سنورنے لگا مزا خلوص میں ہوتا ہے گفتگو میں نہیں جسے سمجھ نہیں آئی وہ بات کرنے لگا وہ جتنی دیر سے ڈوبا مری محبت میں میں اتنا جلد ہی اشعار میں ابھرنے ...

    مزید پڑھیے

    ہر سمت بکھرتی ہوئی خوشبو کی طرح ہیں

    ہر سمت بکھرتی ہوئی خوشبو کی طرح ہیں کچھ لوگ مرے شہر میں اردو کی طرح ہیں کچھ لوگ محبت کے پیمبر ہیں زمیں پر کچھ لوگ سیہ رات میں جگنو کی طرح ہیں گر سکتے ہیں دامن پہ کسی وقت بھی اب ہم رخسار پہ ٹھہرے ہوئے آنسو کی طرح ہیں سرہانے پہ رکھے ہوئے کچھ خواب ہمارے پھولوں سے بھرے آپ کے بازو کی ...

    مزید پڑھیے

    ٹھہر ٹھہر کے خدارا کلام کیجئے ناں

    ٹھہر ٹھہر کے خدارا کلام کیجئے ناں اداس شب کا بھی کچھ احترام کیجئے ناں سنا ہے آپ کی آنکھیں ہیں بادشاہ آنکھیں نظر اٹھائیے ہم کو غلام کیجئے ناں یہ چند اہل محبت کا پیر و مرشد ہے یہ آ گیا ہے تو اٹھ کر سلام کیجئے ناں وہ شام جس میں ستاروں کے بھاگ جاگتے ہیں اک ایسی شام ہمارے بھی نام ...

    مزید پڑھیے