کسی کی مہندی کا رنگ ہاتھوں سے دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

کسی کی مہندی کا رنگ ہاتھوں سے دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
وہ دل سے چاہے جو میرا ہونا تو ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی


جو شام ڈھلتے ہی میری آنکھوں میں جھلملاتا ہے چاند بن کر
وہ اپنے سینے میں میری دھڑکن سمو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی


جو اپنے زخموں کو میری نظروں سے دور رکھنے کا سوچتا ہے
وہ میری پلکوں کی نرم چھاؤں میں سو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی


اگرچہ طوفان اشک ہم کو تمہارے غم نے عطا کیا ہے
مگر یہ طوفان اپنی کشتی ڈبو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی


میں سر سے پا تک ہوں اس کا لیکن دعائیں میری وفائیں میری
اک اپنے ہرجائی پن کے باعث وہ کھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی


مجھے یقیں ہے بچھڑ کے مجھ سے ہزار آہیں بھرے گا لیکن
وہ چند اشکوں سے اپنا دامن بھگو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی


تمہارا شہبازؔ جس کو جاناں محبتیں راس ہی نہ آئیں
وہ چند دن تک تمہاری دنیا میں ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی