Shahab Akhtar

شہاب اختر

شہاب اختر کی نظم

    دل سے

    دل سے ہزار خیال نکلتے جب سے تمہیں دیکھا ہے تم سے پہلے زندگی میں کوئی چمک نہیں تھی اب ہاتھ بھی دعا کو اٹھتے ہیں اب نماز بھی میں پڑھتا ہوں تم سے پہلے میں ایسا نہیں تھا تم کو دیکھا تو دست سوال ہوا میں

    مزید پڑھیے

    معدوم ہوتی خوشبو

    اب کبھی اچانک سامنا ہوتا ہے تو کھنکتی مہکتی یادوں کے دھندلکے وہ سارے چمبن وہ سارے لمس وہ ساری خوشبوئیں بکھرنے لگتی ہیں ہم حیرت زدہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں کہ اب کیا باقی بچا ہے اس بے نام شناخت کے جو ہم دونوں کے بیچ سے دھیرے دھیرے معدوم ہوتی جا رہی ہے

    مزید پڑھیے

    تیری سنگ

    زلفوں کی خوشبو اندر تک اتر رہی ہے ہوائیں سرسرا رہی ہیں ہڈیوں ہی کوئی راگ بج رہا ہے یہ طبلہ خاموش ہے بہت ساون کی پھوہاروں کی تھاپ تیز ہے تم آؤ میرے سنگیت کو سنگت دینے کے لئے

    مزید پڑھیے

    سمندر کا راستہ

    جھیل جہاں سے میں لوٹا تھا صدی پہلے وہاں واپس پہنچنا چاہتا ہوں جھیل میں جانتا ہوں تم سمندر نہیں ہو میں کہ بس نہیں ہوں مجھے تمہارے سوا کوئی اور راستہ نہیں معلوم دنیا کے گھمسان میں کھویا رہا ہوں اب اچھا نہیں لگتا کچھ بھی صدی کے بعد لوٹا ہوں میں اپنی ذات میں واپس لوٹنا چاہتا ...

    مزید پڑھیے

    میری شاعری

    ایک دفعہ جب راشن ختم ہوا تھا تو ردی نکالی تھی گھر سے کہ بیچ آئیں ہنس کے کہا تھا تم نے تب کہو تمہاری نظمیں بھی کیا ڈال دوں ان میں ان سے وزن بڑھ جائے گا میں نے کہا تھا کل جو وقت کرے گا وہ مت آج کرو آنکھیں تمہاری بھر آئیں ہوئی اور تم نے کہا تھا میں تو کہا وہ وقت بھی نہ کر پائے گا

    مزید پڑھیے

    میرا شہر

    جہاں میں رہتا ہوں وہاں سب رہتے ہیں میرے گھر کے قریب ہی ایک گدھا رہتا ہے جو بڑے خلوص سے ملتا ہے وہیں پہ ایک لومڑی بھی رہتی ہے جس کے ہر بول میں مکاری ہے وہیں پہ رہتے ہیں کوے گدھ الو سیار لکڑ بگھے اور پھاڑ کھانے والے شہر بھی اب میں سوچتا ہوں میں ان لوگوں کے بیچ رہتا ہوں یا یہ لوگ میرے ...

    مزید پڑھیے

    میں اور تم

    تم تھی مجھ میں ہی میرے اندر تمہارے ہونے نے ہی مجھے تنہائی کا احساس دیا تم مجھ میں سے ہی ہو تمہیں میں نے جنم دیا ہے اپنے ہی جسم کے حصے سے اور تمہارے ہی جسم سے پیدا کیا میں نے اپنے روپ کو

    مزید پڑھیے

    میرا اس کا ساتھ

    میرے بستر میں دیپک کی طرح میرے ساتھ کون جلتا ہے کون ہے جو میرے ساتھ دور بہت دور تک جلتا ہے میرے غموں کے ساتھ میری ہڈیوں میں اترتا ہے کون ہے گئے رات جو میرے شانوں پہ سر رکھ مجھ کو بڑے پیار سے کہتا ہے ٹھیک ہے سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ تم اکیلے تو نہیں ہو

    مزید پڑھیے

    فریاد

    سنو درزی ٹانک دو گے جسم کے اس حصے کو جس پہ موسم کا سب سے گہرا اتر ہوتا ہے سمندر ان دنوں بے حد یہاں یہ ہے سمندر کے یار کون ہے

    مزید پڑھیے

    جو میں نے سوچا تھا

    میں نے سوچا تھا پہلے پھر کہا تھا جو کہا تھا شاید وہی سوچا تھا جو سوچا تھا وہی کچھ کہا تھا میں نے جس نے سنا اس نے وہی سمجھا جو میں نے کہا تھا لیکن سننے والے کے لئے میری کہی گئی بات بدل گئی تھی جو سوچا تھا میں نے ویسا کچھ بھی نہیں یہی تھا اس تک

    مزید پڑھیے