دل سے
دل سے ہزار خیال نکلتے جب سے تمہیں دیکھا ہے تم سے پہلے زندگی میں کوئی چمک نہیں تھی اب ہاتھ بھی دعا کو اٹھتے ہیں اب نماز بھی میں پڑھتا ہوں تم سے پہلے میں ایسا نہیں تھا تم کو دیکھا تو دست سوال ہوا میں
دل سے ہزار خیال نکلتے جب سے تمہیں دیکھا ہے تم سے پہلے زندگی میں کوئی چمک نہیں تھی اب ہاتھ بھی دعا کو اٹھتے ہیں اب نماز بھی میں پڑھتا ہوں تم سے پہلے میں ایسا نہیں تھا تم کو دیکھا تو دست سوال ہوا میں
اب کبھی اچانک سامنا ہوتا ہے تو کھنکتی مہکتی یادوں کے دھندلکے وہ سارے چمبن وہ سارے لمس وہ ساری خوشبوئیں بکھرنے لگتی ہیں ہم حیرت زدہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں کہ اب کیا باقی بچا ہے اس بے نام شناخت کے جو ہم دونوں کے بیچ سے دھیرے دھیرے معدوم ہوتی جا رہی ہے
زلفوں کی خوشبو اندر تک اتر رہی ہے ہوائیں سرسرا رہی ہیں ہڈیوں ہی کوئی راگ بج رہا ہے یہ طبلہ خاموش ہے بہت ساون کی پھوہاروں کی تھاپ تیز ہے تم آؤ میرے سنگیت کو سنگت دینے کے لئے
جھیل جہاں سے میں لوٹا تھا صدی پہلے وہاں واپس پہنچنا چاہتا ہوں جھیل میں جانتا ہوں تم سمندر نہیں ہو میں کہ بس نہیں ہوں مجھے تمہارے سوا کوئی اور راستہ نہیں معلوم دنیا کے گھمسان میں کھویا رہا ہوں اب اچھا نہیں لگتا کچھ بھی صدی کے بعد لوٹا ہوں میں اپنی ذات میں واپس لوٹنا چاہتا ...
ایک دفعہ جب راشن ختم ہوا تھا تو ردی نکالی تھی گھر سے کہ بیچ آئیں ہنس کے کہا تھا تم نے تب کہو تمہاری نظمیں بھی کیا ڈال دوں ان میں ان سے وزن بڑھ جائے گا میں نے کہا تھا کل جو وقت کرے گا وہ مت آج کرو آنکھیں تمہاری بھر آئیں ہوئی اور تم نے کہا تھا میں تو کہا وہ وقت بھی نہ کر پائے گا
جہاں میں رہتا ہوں وہاں سب رہتے ہیں میرے گھر کے قریب ہی ایک گدھا رہتا ہے جو بڑے خلوص سے ملتا ہے وہیں پہ ایک لومڑی بھی رہتی ہے جس کے ہر بول میں مکاری ہے وہیں پہ رہتے ہیں کوے گدھ الو سیار لکڑ بگھے اور پھاڑ کھانے والے شہر بھی اب میں سوچتا ہوں میں ان لوگوں کے بیچ رہتا ہوں یا یہ لوگ میرے ...
تم تھی مجھ میں ہی میرے اندر تمہارے ہونے نے ہی مجھے تنہائی کا احساس دیا تم مجھ میں سے ہی ہو تمہیں میں نے جنم دیا ہے اپنے ہی جسم کے حصے سے اور تمہارے ہی جسم سے پیدا کیا میں نے اپنے روپ کو
میرے بستر میں دیپک کی طرح میرے ساتھ کون جلتا ہے کون ہے جو میرے ساتھ دور بہت دور تک جلتا ہے میرے غموں کے ساتھ میری ہڈیوں میں اترتا ہے کون ہے گئے رات جو میرے شانوں پہ سر رکھ مجھ کو بڑے پیار سے کہتا ہے ٹھیک ہے سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ تم اکیلے تو نہیں ہو
سنو درزی ٹانک دو گے جسم کے اس حصے کو جس پہ موسم کا سب سے گہرا اتر ہوتا ہے سمندر ان دنوں بے حد یہاں یہ ہے سمندر کے یار کون ہے
میں نے سوچا تھا پہلے پھر کہا تھا جو کہا تھا شاید وہی سوچا تھا جو سوچا تھا وہی کچھ کہا تھا میں نے جس نے سنا اس نے وہی سمجھا جو میں نے کہا تھا لیکن سننے والے کے لئے میری کہی گئی بات بدل گئی تھی جو سوچا تھا میں نے ویسا کچھ بھی نہیں یہی تھا اس تک