Shahab Akhtar

شہاب اختر

شہاب اختر کی غزل

    میرؔ و غالبؔ کی طرح سحر بیاں سے نکلے

    میرؔ و غالبؔ کی طرح سحر بیاں سے نکلے شعر ایسا بھی کوئی دل سے زباں سے نکلے اشک سے بھیگے ہوئے میں مرے الفاظ غزل آگ سے کوئی لپک جیسے دھواں سے نکلے کوئی سیلاب بھی روکے سے نہیں رکتا ہے راستہ تھا ہی نہیں پھر بھی وہاں سے نکلے

    مزید پڑھیے

    دامن میں آنسو مت بونا

    دامن میں آنسو مت بونا ہاتھ آئے موتی کیا کھونا بھیگے کاغذ کی تحریر میں دھوپ نکل آئے تو دھونا چادر تو سرکاؤ سر سے آنگن میں بکھرا ہے سونا یہ محفل ہے ہنس لو گا لو تنہائی میں کھل کر رونا پیچھے مڑ کر دیکھنے والے پتھر میں تبدیل نہ ہونا اس سے کچھ کہنے کا مطلب آنسو میں آواز بھگونا

    مزید پڑھیے