Shafiq Saleemi

شفیق سلیمی

شفیق سلیمی کی غزل

    اب جا کر احساس ہوا ہے پیار بھی کرنا تھا

    اب جا کر احساس ہوا ہے پیار بھی کرنا تھا پیار جو کرنا تھا اس کا اظہار بھی کرنا تھا اول اول کشتیٔ جاں غرقاب بھی ہونا تھی آخر آخر سانسوں کو پتوار بھی کرنا تھا سب کچھ پانا بھی تھا ہم کو سب کچھ کھونا بھی جیت بھی جانا تھا پھر جیت کو ہار بھی کرنا تھا صحراؤں کی خاک اڑاتے اندھے رستوں ...

    مزید پڑھیے

    صاحب زر نہ سہی صاحب عزت ہیں ابھی

    صاحب زر نہ سہی صاحب عزت ہیں ابھی اور اک سنگ ملامت کہ سلامت ہیں ابھی یوں تو بے قفل ہیں لب اور صدائیں آزاد پھر بھی الفاظ کہ محروم سماعت ہیں ابھی پر تأثر تھی بہت ان کی خطابت لیکن چند باتیں ہیں کہ مرہون وضاحت ہیں ابھی سچ کے خیمے میں رہیں جھوٹ کی بیعت کر لیں کتنے ہی لوگ کہ پابند ...

    مزید پڑھیے

    تیر ختم ہیں تو کیا ہاتھ میں کماں رکھنا

    تیر ختم ہیں تو کیا ہاتھ میں کماں رکھنا اس مہیب جنگل میں حوصلہ جواں رکھنا کیا پتا ہوائیں کب مہربان ہو جائیں پانیوں میں جب اترو ساتھ بادباں رکھنا رنجشیں بھلا دینا فاصلے مٹا دینا اک مہین سا پردہ پھر بھی درمیاں رکھنا ہم بھی ہونٹ سی لیں گے جی سکے تو جی لیں گے کیا کوئی ضروری ہے ...

    مزید پڑھیے

    بجا کہ ہر کوئی اپنی ہی اہمیت چاہے

    بجا کہ ہر کوئی اپنی ہی اہمیت چاہے مگر وہ شخص تو ہم سے مصاحبت چاہے گزر رہے ہیں عجب جاں کنی میں روز و شب کہ روح قریۂ تن سے مہاجرت چاہے کماں میں تیر چڑھا ہو تو بے اماں طائر سلامتی کو کوئی کنج عافیت چاہے نکل پڑے ہیں گھروں سے تو سوچنا کیسا اب آئے رہ میں عذابوں کی سلطنت چاہے انا کے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے ہاتھ پر تحریر ہونا

    کسی کے ہاتھ پر تحریر ہونا مرا بھی صاحب تقدیر ہونا فقط اک خواب ہو کر رہ گیا ہے ادھورے خواب کی تعبیر ہونا نکلنا روح کی گہرائی سے اور دعا کا حامل تاثیر ہونا یہ ہونا تو ہے لیکن کب یہ ہوگا قبائے زر کا لیر و لیر ہونا حصار ضبط سے باہر تھا وہ اشک جسے تھا درد کی تفسیر ہونا شفیقؔ آخر ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3