Shafiq Saleemi

شفیق سلیمی

شفیق سلیمی کی غزل

    بے نام دیاروں سے ہم لوگ بھی ہو آئے

    بے نام دیاروں سے ہم لوگ بھی ہو آئے کچھ درد تھے چن لائے کچھ اشک تھے رو آئے کچھ پاس نہ تھا اپنے بس آس لیے گھومے اک عمر کی پونجی تھی سو اس کو بھی کھو آئے توہین انا بھی کی تحسین ریا بھی کی یہ بوجھ بھی ڈھونا تھا یہ بوجھ بھی ڈھو آئے اک کار نمو برسوں کرتے رہے بن سوچے ہم بیج محبت کے ...

    مزید پڑھیے

    یاد نہیں ہے کب اترے تھے خوف سمندر میں

    یاد نہیں ہے کب اترے تھے خوف سمندر میں لیکن صدیوں سے ہیں ڈیرے خوف سمندر میں انجانی طاقت کے جتنے روپ ہیں دنیا میں ہم سے سارے ملنے آئے خوف سمندر میں زرد رتوں کے پھول کھلے ہیں ہر اک چہرے پر سارے چہرے ایک سے چہرے خوف سمندر میں مستقبل کی سوچ میں گم ہیں نجم و مہر و ماہ ہر اک شے ہی ڈوبی ...

    مزید پڑھیے

    رکوں تو رکتا ہے چلنے پہ ساتھ چلتا ہے

    رکوں تو رکتا ہے چلنے پہ ساتھ چلتا ہے مگر گرفت میں آتا نہیں کہ سایہ ہے جھلس رہے ہیں بدن دھوپ کی تمازت سے کہ رات بھر بڑے زوروں کا ابر برسا ہے ابھی تو کل کی تھکن جسم سے نہیں نکلی ستم کہ آج کا دن بھی پہاڑ جیسا ہے سمجھ رہے تھے جسے ایک مہرباں بادل وہ آگ بن کے ہری کھیتیوں پہ برسا ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ جن کی چھاؤں میں پلے بڑے ہوئے

    وہ جن کی چھاؤں میں پلے بڑے ہوئے ادھر ادھر پڑے ہیں سب کٹے ہوئے ہزیمتوں کے کرب کی علامتیں چراغ طاق طاق ہیں بجھے ہوئے تمام تیر دشمنوں سے جا ملے کمان دار کیا کریں ڈٹے ہوئے وصال رت میں ہجر کی حکایتیں اداس کر گئی ہیں دل کھلے ہوئے گھروں کی رونقیں وہی جو تھیں کبھی مگر بھلا دیے گئے گئے ...

    مزید پڑھیے

    خلق خدا ہے شاہ کی مخبر لگی ہوئی

    خلق خدا ہے شاہ کی مخبر لگی ہوئی خاموشیوں کی بھیڑ ہے گھر گھر لگی ہوئی سنگ و سگ و صدا سبھی پیچھے پڑے ہوئے اک دوڑ سی ہے ہم میں برابر لگی ہوئی صد اہتمام گریہ بھی آیا نہ اپنے کام بجھتی نہیں ہے آگ سی اندر لگی ہوئی آؤ کہ مطمئن کریں اپنے ضمیر کو مہر سکوت توڑ دیں لب پر لگی ہوئی لازم ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہم زمین زادوں کو آسماں بنا جانا

    ہم زمین زادوں کو آسماں بنا جانا پہلے خاک کر دینا اور پھر اڑا جانا جسم سے جدا رہنا روح میں سما جانا کوئی آپ سے سیکھے جان پر بنا جانا بے شعور ساتھی نے ساحلوں کے باسی نے ہم کو سر پھرا سمجھا دشت کی ہوا جانا اور گر قریب آتے نقش اور دھندلاتے قربتوں کی دوری کو تم نے فاصلہ جانا بے ضمیر ...

    مزید پڑھیے

    سوال کرتا نہیں اور جواب اس کی طلب

    سوال کرتا نہیں اور جواب اس کی طلب کہ ان کہی کا بھی دہرہ عذاب اس کی طلب زمین شور سے کونپل نمو کی مانگتا ہے نہال خشک سے تازہ گلاب اس کی طلب وہ آنکھ کھلنے کا بھی انتظار کرتا نہیں درون خواب ہی تعبیر خواب اس کی طلب وصال رت کا ہر اک لمحہ اس کے نام کیا مگر ہے گزرے دنوں کا حساب اس کی ...

    مزید پڑھیے

    رہا شامل جو میرے رتجگوں میں کون تھا وہ

    رہا شامل جو میرے رتجگوں میں کون تھا وہ جو تھا تسکین جاں تنہائیوں میں کون تھا وہ مری آواز جیسی اور بھی آواز تھی اک یقیناً تھا کوئی تو پربتوں میں کون تھا وہ جو میرے ساتھ پہنچا منزلوں تک کون ہے یہ جسے میں چھوڑ آیا راستوں میں کون تھا وہ بہت ملتا تھا مجھ سے وار کرنے کا طریقہ جو اک ...

    مزید پڑھیے

    ان بلا کی آندھیوں میں اک شجر باقی رہے

    ان بلا کی آندھیوں میں اک شجر باقی رہے فاختاؤں کے لئے کوئی تو گھر باقی رہے ایک تارہ ایک دیپک ایک جگنو ہی سہی رات کی دیوار میں کوئی تو در باقی رہے چاند کی کشتی تہ دریا ہوئی تھی جس جگہ کچھ نشاں باقی رہے کوئی بھنور باقی رہے جانے والے کو کبھی بھی لوٹ کر آنا نہیں لوٹ آنے کی بہر صورت ...

    مزید پڑھیے

    اک پل بھی مرے حال سے غافل نہیں ٹھہرا

    اک پل بھی مرے حال سے غافل نہیں ٹھہرا کیوں پھر وہ مرے درد میں شامل نہیں ٹھہرا حالات کے پالے ہوئے عفریت کے ہاتھوں سینے میں کبھی سانس کبھی دل نہیں ٹھہرا ہر خواہش جاں مار کے سب راحتیں تج کے جز میرے کوئی غم کے مقابل نہیں ٹھہرا جس شخص کو آتا تھا ہنر نوحہ گری کا وہ شخص بھی اب کے لب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3