Shafiq Saleemi

شفیق سلیمی

شفیق سلیمی کے تمام مواد

25 غزل (Ghazal)

    بے نام دیاروں سے ہم لوگ بھی ہو آئے

    بے نام دیاروں سے ہم لوگ بھی ہو آئے کچھ درد تھے چن لائے کچھ اشک تھے رو آئے کچھ پاس نہ تھا اپنے بس آس لیے گھومے اک عمر کی پونجی تھی سو اس کو بھی کھو آئے توہین انا بھی کی تحسین ریا بھی کی یہ بوجھ بھی ڈھونا تھا یہ بوجھ بھی ڈھو آئے اک کار نمو برسوں کرتے رہے بن سوچے ہم بیج محبت کے ...

    مزید پڑھیے

    یاد نہیں ہے کب اترے تھے خوف سمندر میں

    یاد نہیں ہے کب اترے تھے خوف سمندر میں لیکن صدیوں سے ہیں ڈیرے خوف سمندر میں انجانی طاقت کے جتنے روپ ہیں دنیا میں ہم سے سارے ملنے آئے خوف سمندر میں زرد رتوں کے پھول کھلے ہیں ہر اک چہرے پر سارے چہرے ایک سے چہرے خوف سمندر میں مستقبل کی سوچ میں گم ہیں نجم و مہر و ماہ ہر اک شے ہی ڈوبی ...

    مزید پڑھیے

    رکوں تو رکتا ہے چلنے پہ ساتھ چلتا ہے

    رکوں تو رکتا ہے چلنے پہ ساتھ چلتا ہے مگر گرفت میں آتا نہیں کہ سایہ ہے جھلس رہے ہیں بدن دھوپ کی تمازت سے کہ رات بھر بڑے زوروں کا ابر برسا ہے ابھی تو کل کی تھکن جسم سے نہیں نکلی ستم کہ آج کا دن بھی پہاڑ جیسا ہے سمجھ رہے تھے جسے ایک مہرباں بادل وہ آگ بن کے ہری کھیتیوں پہ برسا ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ جن کی چھاؤں میں پلے بڑے ہوئے

    وہ جن کی چھاؤں میں پلے بڑے ہوئے ادھر ادھر پڑے ہیں سب کٹے ہوئے ہزیمتوں کے کرب کی علامتیں چراغ طاق طاق ہیں بجھے ہوئے تمام تیر دشمنوں سے جا ملے کمان دار کیا کریں ڈٹے ہوئے وصال رت میں ہجر کی حکایتیں اداس کر گئی ہیں دل کھلے ہوئے گھروں کی رونقیں وہی جو تھیں کبھی مگر بھلا دیے گئے گئے ...

    مزید پڑھیے

    خلق خدا ہے شاہ کی مخبر لگی ہوئی

    خلق خدا ہے شاہ کی مخبر لگی ہوئی خاموشیوں کی بھیڑ ہے گھر گھر لگی ہوئی سنگ و سگ و صدا سبھی پیچھے پڑے ہوئے اک دوڑ سی ہے ہم میں برابر لگی ہوئی صد اہتمام گریہ بھی آیا نہ اپنے کام بجھتی نہیں ہے آگ سی اندر لگی ہوئی آؤ کہ مطمئن کریں اپنے ضمیر کو مہر سکوت توڑ دیں لب پر لگی ہوئی لازم ہے ...

    مزید پڑھیے

تمام