Shafiq Saleemi

شفیق سلیمی

شفیق سلیمی کی غزل

    بچا تھا ایک جو وہ رابطہ بھی ٹوٹ گیا

    بچا تھا ایک جو وہ رابطہ بھی ٹوٹ گیا خفا جو خود سے ہوئے آئنہ بھی ٹوٹ گیا فضائیں لاکھ بلائیں اڑان کیسے بھریں پروں کے ساتھ ہی جب حوصلہ بھی ٹوٹ گیا اس ایک پیڑ کے در پے تھیں آندھیاں کیا کیا کہ اس کے ٹوٹتے زور ہوا بھی ٹوٹ گیا پرندے ڈھونڈتے پھرتے ہیں پھر سے جائے اماں شجر کے ساتھ ہی ہر ...

    مزید پڑھیے

    سر میں ایک سودا تھا بام و در بنانے کا

    سر میں ایک سودا تھا بام و در بنانے کا آج تک نہیں سوچا ہم نے گھر بنانے کا یوں نہ رینگتی رہتیں کاغذوں پہ تصویریں وقت جو ملا ہوتا بال و پر بنانے کا یوں کہاں بھٹکتے ہم خواہشوں کے صحرا میں فن اگر ہمیں آتا مال و زر بنانے کا چل دیے اکیلے ہی جستجوئے منزل میں کام خاصا مشکل تھا ہم سفر ...

    مزید پڑھیے

    ساری تعبیریں ہیں اس کی سارے خواب اس کے لیے

    ساری تعبیریں ہیں اس کی سارے خواب اس کے لیے ہر سوال اس کے لیے ہے ہر جواب اس کے لیے ہجر کے لمحے شماریں یا لکیریں حرف ہم ہر حساب اس کے لیے ہے ہر کتاب اس کے لیے قرب اس کا ہے ہماری واپسی کا منتظر جھیلتے ہیں ہم بھی دوری کا عذاب اس کے لیے وہ ہمارے واسطے رہتا ہے ہر دم مضطرب ہم بھی ہیں آئے ...

    مزید پڑھیے

    ٹک کے بیٹھے کہاں بیزار طبیعت ہم سے

    ٹک کے بیٹھے کہاں بیزار طبیعت ہم سے چھین ہی لے نہ کوئی آ کے یہ نعمت ہم سے بر سر عام یہ کہتے ہیں کہ ہم جھوٹے ہیں اس بھرے شہر میں زندہ ہے صداقت ہم سے ہم جو مظلوم ہیں اک طرح سے ظالم ہیں ہم ہر ستم گار کے بازو میں ہے طاقت ہم سے دیکھ پائے نہ تو آنکھیں ہی بجھا لیں ہم نے اور کیا چاہتا ہے لفظ ...

    مزید پڑھیے

    بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے

    بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے کیسا تھا وہاں گرم دوپہروں کا جھلسنا برسات رتوں کا یہ نگر کیسا لگا ہے دن میں بھی دہل جاتا ہوں آباد گھروں سے سایا سا مرے ساتھ یہ ڈر کیسا لگا ہے ہونٹوں پہ لرزتی ہوئی خاموش صدا کا آنکھوں کے دریچوں سے گزر کیسا لگا ...

    مزید پڑھیے

    تیز آندھی نے فقط اک سائباں رہنے دیا

    تیز آندھی نے فقط اک سائباں رہنے دیا ہم زمیں زادوں کے سر پر آسماں رہنے دیا لفظ وہ برتے کہ ساری بات مبہم ہو گئی اک پردہ تھا کہ حائل درمیاں رہنے دیا آنکھ بستی نے سبھی موسم مسافر کر دیے ایک اشکوں کی روانی کا سماں رہنے دیا خون کی سرخی اندھیروں میں اجالا بن گئی ہم نے ہر صورت چراغوں ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ کر اس کو مجھے دھچکا لگا

    دیکھ کر اس کو مجھے دھچکا لگا مثل دریا تھا مگر پیاسا لگا نفرتوں کی دھند میں لپٹا لگا آئنے کا نقش بھی جھوٹا لگا سخت جاں تھے بچ گئے اس بار بھی زخم اب کے بھی ہمیں گہرا لگا پورے قد سے ایستادہ جب ہوئے شہر کا ہر شخص پھر بونا لگا کس کی چھاؤں سائباں کرتے شفیقؔ ہر شجر پر خوف کا سایہ لگا

    مزید پڑھیے

    کنج تنہائی بسائے ہجر کی لذت میں ہوں

    کنج تنہائی بسائے ہجر کی لذت میں ہوں سب سے دامن جھاڑ کر بس اک تری چاہت میں ہوں کون سا سودا ہے سر میں کس کے قابو میں ہے دل ہر قدم صحراؤں میں ہے ہر گھڑی وحشت میں ہوں میں اناؤں کا تھا پروردہ تو پھر دست سوال کس طرح پھیلا کسی کے سامنے حیرت میں ہوں یہ بھی کیا بے چارگی ہے کاغذی ...

    مزید پڑھیے

    گاؤں رفتہ رفتہ بنتے جاتے ہیں اب شہر

    گاؤں رفتہ رفتہ بنتے جاتے ہیں اب شہر قریہ قریہ پھیل رہا ہے تنہائی کا زہر مجھ کو ڈستا رہتا ہے بس ہر دم یہی خیال ایک ہی رخ پر کیوں بہتا ہے دریا آٹھوں پہر کون سا بھولا بسرا غم تھا جو آیا ہے یاد رہ رہ کر پھر دل میں اٹھے درد کی میٹھی لہر میرا جیتے رہنا بھی تو بن گیا ایک عذاب لیکن میرا ...

    مزید پڑھیے

    جو بھی ہم سے بن پڑا کرتے رہے

    جو بھی ہم سے بن پڑا کرتے رہے رت بدلنے کی دعا کرتے رہے کیسی کیسی چاہتوں کے تھے چراغ جن کو ہم برد ہوا کرتے رہے ٹانک کر خوش رنگ امیدوں کے پھول خشک ٹہنی کو ہرا کرتے رہے رنگ خوشبو سے الگ ہوتے نہ تھے لفظ معنی سے جدا کرتے رہے جانتے تھے چاپلوسی کا ہنر کام پھر بھی دوسرا کرتے رہے خوف ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3